ٹی وی چینلوں کے نفرت انگیز مباحثوں میں نام نہاد مسلم ایکسپرٹ کی شرکت

ٹی وی چینلوں پر خاص ایجنڈے کے تحت ہونے والی بحث و مباحثوں میں شرکت کا آخر کیا مطلب ہے؟ کیا کوئی نام نہاد ’مسلم ایکسپرٹ‘ یہ بتا سکتا ہے کہ ان مباحثوں کا حاصل کیا ہے؟

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

ملک میں صحافت کے معیار اور اس کی معتبریت پر پہلے ہی سوالات اٹھتے رہے ہیں، اب نیوز چینلوں پر ہونے والے مباحثے سماج اور صحافت کے دامن پر بد نما داغ بن گئے ہیں۔ چینلوں کے ذریعہ جلتی آگ میں گھی ڈالا جا رہا ہے۔ یہ مباحثے عام شہری کو بیدار اور باشعور بنانے کی بجائے ان کے اندر نفرت اور زہر بھر نے کا کام کر رہے ہیں۔ ان مباحثوں میں کوئی مدلل بات کی بجائے ہنگامہ برپا نظر آتا ہے، معنی خیز بحث سے زیادہ شور سنائی دیتاہے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا عام بات ہو گئی ہے۔

اس سے بھی زیادہ حیران کن اور پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ ٹی وی مباحثے اب مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کا آسان ذریعہ بن گئے ہیں۔ پارٹیوں کے ترجمان اور سیاستدانوں کے درمیان ہونے والی بحث و مباحثہ اور تکرار تو سمجھ میں آتی ہے، مگر مذہبی لبادہ پہن کر اسلام اور مسلمانوں کے مسائل پر بحث کرنے والے نام نہاد ’ایکسپرٹس‘ نے نہ صرف مباحثوں کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ہے، بلکہ مذہبی معاملات کو سڑک چھاپ بحثوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ لوگ ایک خاص ایجنڈے کے تحت کام کرنے والے چینلوں اور ان کے اینکروں کے آلہ کار بھی بن گئے ہیں۔ ان سب سے زیادہ ملک و قوم کے لئے خطرناک بات یہ ہے کہ اکثر نیوز چینل ایک منظم طریقے سے فرقہ پرست طاقتوں کی آواز بن چکے ہیں اور ان کے ’پرچارک‘ نظر آتے ہیں۔

یہ مباحثے ملت کی توقیر کا سبب بن رہے ہیں یا پھر تذلیل کا؟

حال ہی میں ان ٹی وی مباحثوں کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کے بعد متعدد سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اور یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا یہ مباحثے کسی مہذب معاشرے کے لئے سود مند ہیں؟ کیا ان سے سماج کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے؟ کیا ان ٹی وی مباحثوں سے عام ہندوستانی کا کچھ بھلا ہو رہا ہے؟ کیا عام شہریوں میں بنیادی مسائل کے تئیں کوئی بیداری پیدا ہو رہی ہے؟ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا خاص طور پر مذہبی معاملات پر ہونے والی بحثوں سے ملک اور ملت کو کیا حاصل ہوا ہے؟ یہ مباحثے ملت کی توقیر کا سبب بن رہے ہیں یا پھر تذلیل کا؟ کیا مذہبی امور پر ان بحثوں میں شامل ہونے والے پینلسٹ اپنا موقف مضبوطی کے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ان ’مسلم ایکسپرٹس‘ کو ان ٹی وی مباحثوں میں شامل ہونا چاہئے؟ اور ان نام نہاد ماہرین کو کس نے ٹی وی پر بحث کے لئے مامور کیا ہے؟ کیوں کہ ایسا مانا جا رہا ہے کہ نام نہاد مسلم دانشور اور ماہرین فرقہ پرست طاقتوں اور ان کے آلہ کار بن چکے چینلز و اینکرس کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ٹی وی کے مباحثوں میں مقدس مذہبی شخصیات پر کیچڑ اچھالی جا رہی ہے

در اصل یہ بحث و مباحثے ہنگامہ، شور شرابہ، تو تو میں میں، گالی گلوچ اور ٹی آر پی کے کھیل سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ بحث کے معیار کی بات کون کرے، دشنام طرازی اور ایک دوسرے کی تذلیل سے ہوتے ہوئے اب بات مذہب اور مقدس مذہبی شخصیات کی توہین تک پہنچ چکی ہے۔ یہ شاید انتہا ہے کہ ٹی وی کے مباحثوں میں مقدس مذہبی شخصیات پر کیچڑ اچھالی جا رہی ہے۔

ان سب کے لئے جتنے ذمہ دار چینل اور ان کے اینکر ہیں، اس سے کہیں زیادہ قصور وار وہ نام نہاد ’مسلم ایکسپرٹس‘ ہیں جو ٹی وی پر اپنے چہرے چمکانے کے لئے اور سستی شہرت اور دولت حاصل کرنے کے مقصد سے ان مباحثوں میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ جن ٹی وی مباحثوں میں وہ شامل ہوئے ہیں اور مسلم مسائل پر جو گفتگو ہوئی ہے، ان سے ملک و ملت کو کتنا فائدہ ہوا؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا موقف بہتر طریقے سے رکھنے میں کامیاب ہو گئے؟ کیا انہیں اپنی بات دلائل اور مضبوطی کے ساتھ رکھنے کا پورا موقع دیا گیا؟

نہاری کی دکان چلانے والا ایک شخص بحیثیت ’مسلم اسکالر‘ اکثر نیوز چینلوں پر نظر آتا ہے

ایسا نہیں ہے کہ ان مباحثوں میں شامل ہونے والے سبھی ’مسلم ایکسپرٹس‘ سستی شہرت اور چند پیسوں کے لئے ٹی وی کی بحثوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن سے راقم الحروف بخوبی واقف ہے اور یقیناً وہ لوگ اپنا موقف پیش کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ میں نے کافی عرصہ پہلے نیوز چینلوں کی بحث دیکھنے اور اس میں شامل ہونے سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، مگر چند روز پہلے کسی نے بتایا کہ دہلی میں نہاری کی دکان چلانے والا ایک شخص کرتا پائجامہ اور ٹو پی پہن کر بحیثیت ’مسلم اسکالر‘ شام کو اکثر نیوز چینلوں پر نظر آتا ہے، یہ تو ایک مثال ہے۔ درجنوں چینلوں کو درجنوں کے حساب سے ’مسلم ماہرین‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں ان چینلوں کو اپنا ایجنڈہ سیٹ کرنے میں جو بھی مددگار نظر آتا ہے، وہ اس کو بحث میں شامل ہونے کے لئے بلالیتے ہیں۔ جب بحث و مباحثے کا یہ معیار ہو، تو پھر اس میں باشعور اور سمجھدار لوگوں کے شامل ہونے کا کیا مطلب ہے۔

مباحثوں میں شامل ہونے سے فی الحال کنارہ کشی اختیار کر لینا چاہئے

میرے خیال سے انہیں نہ صرف چینلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہئے، بلکہ ان چینلوں کو اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے مباحثوں میں شامل ہونے سے فی الحال کنارہ کشی اختیار کر لینا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان ٹی وی مباحثوں کا خاص مقصد اسلام اور مسلمانوں کی تذلیل ہے۔ اب کھلے عام یا تو اینکر یا پھر دشنام طرازی کے لئے بلائے گئے دیگر پینلسٹ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بلا جھجھک نا زیبا تبصرے کرتے ہیں اور جب کوئی مسلم اس کا جواب دینا چاہتا ہے تو یہ بحث فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ صحافت کے تمام اخلاقی اصولوں اور اقدار و روایات بالائے طاق رکھ دئے جاتے ہیں۔

ٹی وی کے یہ مباحثے مسلمانوں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں

جب ان نام نہاد ’مسلم ایکسپرٹس‘ کے خلاف سوشل میڈیا یا سماج میں کوئی مہم چلتی ہے تو دلیل دی جاتی ہے کہ اگر ہم نہیں جائیں گے تو ہماری بات دوسروں تک نہیں پہنچے گی۔ یہ در اصل اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کا ایک حربہ ہے۔ جیسا میں نے پہلے بھی کہا کہ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جن مباحثوں میں وہ شامل ہوئے ہیں، وہ واقعی با معنی، با مقصد تھے اور کیا ان کو ایمانداری کے ساتھ اپنی بات رکھنے کا موقع دیا گیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹی وی کے یہ مباحثے مسلمانوں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کا موقف پیش کرنے کے لئے چینلوں کے اسٹوڈیو نہیں سجائے جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی تذلیل اور رسوائی کا اسٹیج تیار کیا جاتا ہے۔

بہر حال ان مسلم پینلسٹ کو چاہئے کہ وہ بیک وقت ایک ساتھ کچھ عرصہ کے لئے ان مباحثوں کا بائیکاٹ کر دیں اور کسی بھی چینل پر اسلام اور مسلمانوں کے سلسلہ میں ہونے والے مذاکرے میں شامل ہونے سے صاف انکار کر دیں، پھر آپ دیکھیں گے کہ ان چینلوں اور اینکروں کے ذریعہ سجائی جانے والی نفرت اور فرقہ پرستی کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔ عام ناظرین تک بھی یہ اپنا ایجنڈہ پہنچانے میں ناکام ہو جائیں گے۔

مسلم پینلسٹ کو مشورہ

ٹی وی مباحثوں میں شامل ہونے والے مسلم پینلسٹ اگر واقعی اپنی بات ایمانداری کے ساتھ عوام کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور غیر جانبدار صحافیوں کے ذریعہ چلائے جانے والے یو ٹیوب چینلوں کا سہارا لے سکتے ہیں۔ جہاں وہ اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ آج کل ان کی رسائی بھی نیوز چینلوں سے کم نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگ محض چند پیسوں اور سستی شہرت کے لئے چینلوں اور فرقہ پرست نیوز اینکروں کی نفرت انگیز مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان چینلوں کا مقصد دیگر پینلسٹ کے ذریعہ اسلام اور مذہبی شخصیات کے خلاف تبصرہ کرکے مسلم پینلسٹ کو مشتعل کرنا اور عام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ یہی فرقہ پرستوں کا اصل ایجنڈہ بھی ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ دونوں ہی فرقوں کے پینلسٹ مذہبی امور میں معمولی جانکاری رکھتے ہیں، مگر بحث کے دوران بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے ۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ مسلم پینلسٹ ان مباحثوں کا مکمل بائیکاٹ کر دیں یا اگر پھر بھی جاتے ہیں تو کم از کم پوری تیاری اور مضبوطی کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

مضمون میں پیش کیے گئے افکار و آراء مضمون نگار کے ذاتی افکار ہیں۔