اگردوسرے کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ہی اپنی عقیدت کا اظہار ہے، تو پھر ایسی عقیدت کس کام کی؟
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
معروف سماجی کارکن او رسبکدوش آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’میں پچھلے کئی سال سے ’کمیونٹی تشدد‘ کا مطالعہ کر رہا ہوں اور یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ فسادات ہوتے نہیں، بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ میں نے ایک آئی اے ایس کے طور پر بہت سے فسادات دیکھے ہیں۔ اگر فساد چند گھنٹے سے زیادہ چلے تو مان لیں کہ یہ انتظامیہ کی رضامندی سے چل رہا ہے۔ ‘‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’فساد برپا کرنے کے لیے تین چیزیں بہت ضروری ہیں۔ نفرت پیدا کرنا، بالکل اس طرح جیسے کسی فیکٹری میں کوئی چیز بنتی ہے۔ دوسرا، فسادات میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی تقسیم۔ تیسرا ہے پولیس کی غفلت یا ملی بھگت، جس کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔‘
اسی طرح سابق آئی پی ایس افسران جولیو ریبیرو اور وبھوتی نارائن رائے نے بھی فسادات میں پولیس کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ایک اور سابق آئی پی ایس افسر سریش کھوپڑے فسادات روکنے کے لئے مہاراشٹر کے بھیونڈی میں کئے گئے تجربے کے لئے مشہور ہیں۔ انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’ممبئی جل رہا تھا پر بھیونڈی کیوں نہیں‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی فساد کو روکنے کے لئے خفیہ سروس کا ہونا بھی ضروری ہے، لیکن پولیس کا یہ محکمہ بالکل ناکارہ سا ہو گیا ہے۔ لوگوں کو پولیس پر اعتماد نہیں ہے۔ لیکن اس تجربہ سے ہمارے پاس معلومات آنے لگی اور صرف فساد ہی نہیں بلکہ جرائم بھی کم ہوئے‘۔
فرقہ وارانہ فسادات انتظامیہ کی بڑی ناکامی
وہیں وبھوتی نارائن رائے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’فرقہ وارانہ فسادات کو انتظامیہ کی بڑی ناکامی کے طور پر لینا چاہیے۔ جو لوگ پولیس میں کام کرتے ہیں وہ اسی معاشرے سے آتے ہیں جس میں فرقہ واریت کا وائرس پنپتا ہے، ان کے اندر وہ تمام تعصبات، نفرتیں، شکوک و شبہات ہوتے ہیں جو ان کے فرقہ میں کسی دوسری کمیونٹی کے بارے میں ہوتے ہیں۔‘ رائے نے شہر میں فسادات، کرفیو پر مبنی ایک ناول بھی لکھا۔ جس میں انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کس طرح سیاست کے ذریعے ملک کے دو بڑے مذہبی طبقوں میں عدم اعتماد پیدا کیا جاتا ہے۔
اب ذرا حال ہی میں پیش آنے والے سلسلہ وار واقعات پر نظر ڈالیں۔ کرناٹک سے لے کر راجستھان، گجرات اور مدھیہ پردیش تک اور اتراکھنڈ سے لے کر بنگال، بہار، جھارکھنڈ اور ملک کی راجدھانی دہلی تک فرقہ وارانہ تشدد کا ایک ہی ’پیٹرن‘ نظر آتا ہے۔ ایک ایک کرکے آپ ان واقعات کو دیکھتے جائیں اور مذکورہ بالا افسران کے تبصرے اور تجربے کو سامنے رکھیں۔ اس دوران پولیس کا کیا رول ہونا چاہئے اور پولیس نے ہر جگہ کیا کیا ہے، اس کو بھی مد نظر رکھیں۔ کیوں کہ اگر تعصب کی عینک اتار کر ایمانداری سے ان سلسلہ وار واقعات کا جائزہ لیا جائے تو تقریباً ہر جگہ ان ناخوشگوار واقعات کا ایک ہی سبب نظر آتا ہے۔
مذہبی جلوس سے فرقہ وارانہ تشدد کی شروعات
جہاں جہاں بھی فرقہ وارانہ تشدد یا کشیدگی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، ان کی شروعات مذہبی جلوس، اشتعال انگیز نعرے بازی، دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کے سامنے ہنگامہ آرائی، ہتھیاروں کی کھلی نمائش، ترشول اور تلواریں لہرا کر دوسروں کو مشتعل کرنے، مذہبی مقامات پر حملے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے سے ہوئی ہے۔ 2 اپریل کو راجستھان کے کرولی میں ٹھیک افطار کے وقت مسجد کے سامنے سے اشتعال انگیز نعروں کے ساتھ ایک مذہبی ریلی نکالی گئی، نتیجہ تشدد کی شکل میں سامنے آیا۔
کئی ریاستوں میں رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد
اس کے بعد 10 اپریل کو ملک کی کئی ریاستوں میں رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد برپا ہوا۔ مدھیہ پردیش کا کھرگون فرقہ وارانہ تشدد کے بعد جل اٹھا۔ یہاں بھی رام نومی کے موقع پر نکالے جانے والے جلوس کے دوران ہوئے تشدد کے بعد کرفیو نافذ کرنا پڑا اور پھر حکومت نے یکطرفہ کارروائی کرکے جمہوری اقدار اور آئین کی دھجیاں اڑا دیں۔ یہاں ایک شخص کی موت بھی ہو گئی۔ اسی طرح بنگال کے ہاوڑہ شیو پور پولیس اسٹیشن کے تحت پی ایم بستی علاقے کے قریب مذہبی جلوس کے دوران ہنگامہ ہو گیا۔
اسی دن گجرات کے آنند، ہمت نگر اور دوارکا میں رام نومی کے جلوس کے دوران دو فرقوں کے درمیان ہوئے تصادم میں ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ جھارکھنڈ کے لوہردگا میں بھی رام نومی کے جلوس کے دوران تصادم ہو گیا، جس میں 15 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے درمیان بھی رام نومی اور کھانے پینے کے مسئلہ پر تشدد ہو گیا۔ ادھر کرناٹک کے کولار میں بھی رام نومی کے جلوس کے دوران پتھراؤ ہوا، جس کے بعد ماحول کچھ خراب ہوا۔
رام نومی کے موقع پر مسجد پر زعفرانی جھنڈا
بہار کے مظفر پور میں بھی رام نومی کے موقع پر مسجد پر زعفرانی جھنڈا زبردستی لہرایا گیا۔ اس کے بعد 16 اپریل کو دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ میں ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران دو فرقوں کے مابین تصادم ہو گیا۔ اسی طرح اتراکھنڈ کے بھگوان پور میں بھی ہنومان جینتی کے جلوس کے دوران تشدد بھڑک اٹھا۔ آندھرا پردیش کے کرنول میں بھی ہنومان جینتی جلوس کے دوران دو فرقوں میں جھڑپ ہو گئی۔ اسی دن کرناٹک کے اولڈ ہبلی میں بھی تشدد اور ہنگامہ کے بعد کشیدگی پھیل گئی۔ یہاں بھی وہی عوامل کار فرما تھے، جو باقی جگہوں پر نظر آئے۔ یعنی پچھلے کچھ عرصہ سے انتخابی فائدے کے لیے مذہبی منافرت کی جو چنگاری لگائی گئی ہے، اس کی آگ میں اب عام لوگ جھلس رہے ہیں۔
ایسا سلسلہ چل پڑا ہے کہ مذہبی جلوس کے نام پر دوسروں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھگوان رام کا جلوس نکالا جاتا ہے، لیکن یہ ان علاقوں میں نکالا جاتا ہے، جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ بھگوان رام کا جلوس ان کی پوجا کرکے نہیں، بلکہ دوسرے مذاہب، دوسرے فرقوں کو گالی دے کر اور خوفزدہ کرکے نکالا جاتا ہے۔ یہ کیسی مذہبی عقیدت ہے کہ جو دوسرے کے مذہبی جذبات کو بھڑکائے، ان کے مذہبی مقامات اور مقدس ہستیوں کو نشانہ بنائے؟ اگر یہی مذہبی عقیدت ہے تو پھر یہ کس کام کی؟
گنگا جمنی تہذیب کی روایت دم توڑتی نظر آ رہی ہے
اگر دیکھا جائے تو ملک میں فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی عدم برداشت نے اب اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی ہیں کہ کثرت میں وحدت اور گنگا جمنی تہذیب کی روایت دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ باتیں صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں کہ یہاں سبھی مذاہب اور فرقوں کے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں۔ ہندوستان کی تکثیریت دنیا کے لئے ایک نمونہ تھی اور دنیا کے سامنے ہم اپنی اسی انفرادیت پر رشک کر سکتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ملک کا ماحول ایسا ہی تھا، لیکن اب یہ گزرے زمانے کی باتیں لگی ہیں۔ اگرچہ ذات برادری، لسانی اور فرقہ واریت کے نام پر فسادات ہمیشہ ہوتے رہے، لیکن ان کا اثر محدود رہا۔ ماضی میں رونما ہونے والے المناک واقعات کو معاشرے پر ایک بدنما داغ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اس طرح کے واقعات پر مختلف حلقوں کی جانب سے شرمندگی و ندامت کا اظہار کیا جاتا تھا، لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی سے فرقہ پرستوں کے حوصلے ساتویں آسمان پر
ملک کا ایک بڑا طبقہ ان واقعات پر یا تو خاموش نظر آ رہا ہے یا پھر وہ بھی خوفزدہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن اور حیران کن یہ ہے کہ پولیس، انتظامیہ، حکومت اور حکمراں سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی اس خاموشی سے ہی ان واقعات کا سلسلہ دراز ہوا ہے۔ سیاستدانوں کے بیانات، دھرم کے نام پر ہونے والی سلسلہ وار ’سنسد‘، مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی، ان کی نسل کشی کی اپیلوں سے فرقہ پرستوں کے حوصلے ساتویں آسمان پر ہیں۔
ان طاقتوں کے خلاف یا تو کارروائی ہی نہیں ہو رہی ہے، یا پھر ہوتی ہے تو برائے نام۔ اگر اس ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں مزید جھلسنے سے بچانا ہے تو حکومت، پولیس، انتظامیہ اور سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے رواداری، غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنا ہوگا۔ وہیں مذہبی جنون پر سوار طاقتوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ تشدد، ظلم اور قتل و غارت گری سے کبھی بھی اپنے مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں (yameen@inquilab.com) مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔