ایک طبقہ کو اقتصادی طور پر کمزور کرکے ملک کو خوشحالی کے راستے پر لے جانے کی سوچ رکھنے والے بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہیں
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے ساتویں آسمان پر ہیں حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج، بالخصوص یو پی کے نتیجوں نے ان طاقتوں کے لئے کھاد اور پانی کا کام کیا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر عوام کے سر پر مذہبی جنون سوار کر دیا جائے تو بے روزگاری، غربت، تعلیم اور صحت جیسے مسائل بے معنی ہیں۔
10 مارچ کو اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے سے پہلے فرقہ پرست طاقتیں کچھ کشمکش میں مبتلا تھیں۔ کیوں کہ کچھ لوگوں کو محسوس ہو رہا تھا کہ شاید عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے عاجز آ چکے ہیں اور وہ بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریںگے۔ لیکن خاص طور پر یو پی کے نتیجوں نے اس گمان کو توڑ دیا۔ اسی لئے فرقہ پرست طاقتیں اب مزید بے لگام ہوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، وہاں ان عناصر نے اپنا کھیل شروع کر دیا ہے۔
مہنگائی اور بے روزگاری
کرناٹک اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس کے بعد راجستھان، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال اور مہاراشٹر وغیرہ میں ایسے غیر ضروری مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے، جو کسی بھی صحت مند معاشرے اور ایک خوشحال ملک کی علامت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ جب مہنگائی اور بے روزگاری حد سے زیادہ بڑھ جائے گی تو ملک کی معیشت اور عام شہریوں کی صحت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیوں کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں، جب غربت اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی۔ ایسے ہی خدشات اور تحفظات کا اظہار خود اس مودی حکومت کے نوکر شاہ کر رہے ہیں۔ ہمیں نفرت کی اس سیاست کے درمیان ملک کی معاشی صورت حال اور بد حال عوام کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔
ایک طرف حکومت اور سرکاری ادارے ملک کی معاشی صورت حال پر متفکر نظر آتے ہیں، تو دوسری طرف فرقہ پرست طاقتیں اور شدت پسند عناصر بے لگام ہیں۔ کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش، یو پی، دہلی اور بنگال وغیرہ ریاستوں میں حال ہی میں جس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب ایک خاص منصوبہ کے تحت کیا جا رہا ہے۔
مخصوص فرقہ کے خلاف زہر افشانی
نفرت کا یہ کاروبار اس قدر بے خوف اور بے لگام ہو کر کیا جا رہا ہے، جیسے انہیں پیغام دے دیا گیا ہو، کہ وہ کچھ بھی کر گزریں، ان کا کچھ نہیں ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ملک کی راجدھانی میں اور پولیس کی اجازت کے بغیر آخر کیسے نفرت کا پجاری یتی نرسنگھا نند اور اس کے ساتھی دوبارہ نفرت اور تشدد کی دکان سجانے میں کامیاب ہو گئے؟ ضمانت پر جیل سے چھوٹا ایک شخص کھلے عام پھر وہی قتل عام کی باتیں کر رہا ہے۔ ہتھیار اٹھانے کی اپیل کر رہا ہے، مخصوص فرقہ کے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے۔ تو اس سے کیا سمجھا جائے؟ اگر حکومت کی سطح پر ایسے شر پسند عناصر کے ساتھ سختی نہیں کی جاتی ہے تو اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ انھیں کہیں نہ کہیں حکمراں طبقہ کی حمایت حاصل ہے۔ لہذا یہ حکومت کے لئے دو کشتیوں کی سواری کرنے جیسا ہے۔
ہندوستان کی اقتصادی حالت تشویشناک
حال ہی میں ملک کےاعلیٰ نوکر شاہوں نے وزیر اعظم مودی کو متنبہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ انتباہ انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مفت راشن تقسیم والی اسکیموں سے کئی ریاستوں کے تباہی کے دہانے پر پہنچ جانے کے سلسلہ میں ہے۔ ان نوکر شاہوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو یہاں بھی سری لنکا اور یونان جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں موجودہ حکومت بھلے ہی دعویٰ کرے کہ معاشی ترقی کے معاملے میں پوری دنیا میں ہندوستان کا ڈنکا بج رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمی اقتصادی امور کے اکثر ادارے ہندوستان کی اقتصادی حالت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
خوشحال ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کا مقام
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے اعداد و شمار کی بنیاد پر کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے معاملے میں ہندوستان دنیا کے 190 ممالک میں 117 ویں مقام پر ہے اسی طرح امریکہ اور جرمنی کی ایجنسیوں کے مطابق گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان 116 ممالک میں 101 ویں نمبر پر ہے اور حال ہی میں اقوام متحدہ کی ’ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ‘ بھی سامنے آئی ہے، جس میں ہندوستان دنیا کے خوشحال ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کا مقام دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک ہی نہیں، بلکہ پاکستان اور جنگ زدہ فلسطین سمیت تمام چھوٹے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے ہے۔
’ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ‘یعنی ’گلوبل ہیپی نیس انڈیکس 2022‘ میں ہندوستان اس بار136 ویں نمبر پر ہے 146 ملکوں میں ہندوستان کا درجہ اتنے نیچے ہے کہ افریقہ کے کچھ بیحد پسماندہ ملک بھی اس کے برابر ہیں۔ نفرت بھرے ماحول، بے تحاشہ مہنگائی اور روز افزوں بڑھتی بے روزگاری سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوستان کا کیا مقام ہو سکتا ہے۔ لیکن افسوس فرقہ پرست طاقتوں اور مذہبی جنون میں ڈوبے کچھ لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
خوشحال اور امیر ترین طبقہ کی ملک سے ہجرت
ملک میں پہلے ہی امیر اور غریب کے درمیان ایک گہری کھائی ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری نے اس خلیج کو مزید گہرا کیا ہے۔ ایسا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک کا خوشحال اور امیر ترین طبقہ بیرون ملک ہجرت کر سکتا ہے۔ وہیں بڑے اور میٹرو شہروں میں کسی طرح اپنی زندگی گزارنے والا طبقہ گاؤں کا رخ کر سکتا ہے۔ اس سال فروری میں لوک سبھا میں بتایا گیا تھا کہ 2015 سے 2019 تک 6 لاکھ 76 ہزار ہندوستانی شہریوں نے ہندوستانی شہریت چھوڑ دی ہے۔
دیگر اطلاعات کے مطابق 2020 میں 85 ہزار 248 لوگوں نے جبکہ ستمبر 2021 تک مزید ایک لاکھ 11 ہزار 287 لوگوں نے ملک کو خیرباد کہا۔ اگر 2015 سے 19 تک کی مجموعی تعداد میں آخر الذکر 2020 اور 2021 کی تعداد کو جوڑا جائے تو 2015 سے 2021 تک کی مجموعی تعداد تقریباً 8.72 لاکھ ہوگی یعنی پونے نو لاکھ لوگ۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔ اسی طرح مہنگی ہوتی شہری زندگی کے درمیان بڑے شہروں سے لوگوں کے گاؤوں کی طرف رخ کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ در اصل اس سمت میں کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت نہ تو حکومتیں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں اور نہ ہی میڈیا اور دیگر گروپس حکومت پر اس قسم کا دباؤ بنا رہے ہیں کہ امیر اور غریب کی خلیج کو کم کیا جائے اور مہنگائی اور بے روزگاری پر کوئی لگام لگائی جائے۔
امیروں کی تعداد میں اضافہ، غربت میں کوئی کمی نہیں
بظاہر حکمراں کتنے ہی دعوے کریں کہ غربت کے خاتمے کے لئے وہ ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، مگر اس کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں میں امیروں کی تعداد بڑھی ہے اور غریبوں کی غربت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ’آکسفم‘ کی ایک رپورٹ میں حال ہی میں کہا گیا تھا کہ ملک کی 10 فیصد آبادی کے پاس ملک کی 77 فیصد دولت ہے۔ یہ معاشی عدم مساوات کا ایک نمونہ ہے، جس کے لئے سرکاری پالیسیوں میں تبدیلی ضروری ہے۔ مفت راشن اور دیگر سہولتوں سے وقتی راحت تو مل جاتی ہے ، لیکن یہ غربت کم کرنے کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں اور ملک کے غریب عوام کی آمدنی میں اضافے کی تدابیر کی جائیں۔
اقتصادی اصلاحات کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستوں، شدت پسند اور شر پسند عناصر پر لگام لگانا بھی نہایت ضروری ہے ۔ پہلے کورونا کے وقت اور اب سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے مذہبی امور میں رخنہ اندازی سے لے کر ان کے معاشی بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ سب حکومتوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے، یقیناً اس طرح کی مہم اس ملک کو غلط سمت لے جا رہی ہے۔ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ ملک کے ایک طبقہ کو اقتصادی طور پر کمزور کرکے ملک کو خوشحالی کے راستے پر لے جایا جا سکتا ہے، وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔