روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری مگر دنیا کو امن کی ضرورت

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے، یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے بڑی یورش ہے، جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے اور قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں، خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ: جب دنیا امن چاہتی ہے، تو پھر جنگ کیوں ہو رہی ہے؟ دو عالمی جنگوں کے بعد دنیا کو محسوس ہواتھا کہ حکمراں ایسی تباہ کن جنگوں سے توبہ کر لیں گے اور دوبارہ ایسی تباہیاں نہیں ہوں گی مگر ۔۔۔

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے بڑی یورش ہے۔ جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے اور قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ اس پرانے تصور پر بھی مہر لگاتی ہے کہ دنیا امن نہیں، جنگیں چاہتی ہے اور تاریخ بار بار اس کو دوہراتی رہی ہے۔

بظاہر دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی اداروں کے قیام اور سرحدی حد بندی کے معاہدوں سے لے کر ممالک کے نقشوں کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی گئی،مگر جنگیں اور تنازعات اپنی جگہ موجود رہے۔ مشرق وسطی میں ہی دیکھیں تو یہاں یکے بعد دیگرے کبھی سچ اور کبھی جھوٹ کی بنیاد پر کئی ملکوں کو کھنڈہر بنا دیا گیا۔ کئی ملکوں میں جمہوریت کے نام پر پہلے خلفشار پیدا کیا گیا اور پھر وہاں کے منتخب حکمرانوں کو تہہ و بالا کر دیا گیا۔

یوکرین کو جنگ کے خونی پنجوں سے نہیں بچایا جا سکا

اس کے علاوہ آرمینیا، ایتھوپیا، لیبیا، یمن، شام اور اب یوکرین کو جنگ کے خونی پنجوں سے نہیں بچایا جا سکا۔ امریکہ نے 2003 میں اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر محض جھوٹے پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر عراق پر حملہ کر دیا۔ پوری دنیا نے امریکی جارحیت پر اُف تک نہیں کیا۔ لاکھوں عراقی لقمہ اجل بن گئے اور دنیا یوں ہی دیکھتی رہی۔

2014 میں اسی روس نے کریمیا پر حملہ کیا۔ اس حملے کے لیے بھی اقوام متحدہ سے اجازت لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح شام میں پہلے امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے یلغار کی اور پھر بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے روس نے لشکر کشی کی۔ بشار الاسد ان عرب رہنماؤں میں سرفہرست تھے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے ہی عوام پر بمباری کی۔ اب حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ روس اپنے عوام کے تحفظ کو بنیاد بنا کر یوکرین پر حملہ آور ہے۔

پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد دنیا کو محسوس ہوا کہ حکمراں ایسی تباہ کن جنگوں سے توبہ کر لیں گے اور دوبارہ ایسی تباہیاں نہیں ہوں گی،مگر کیا ہوا؟ چند دہائیوں کے بعد ہی دوسری جنگ عظیم کے نام سے اس سے زیادہ تباہ کن جنگ چھڑ گئی، جس نے 60 ملین انسانوں کو نگل لیا، جبکہ پہلی جنگ عظیم میں یہ تعداد 40 ملین تھی۔ اسی طرح مغربی ممالک کو لگتا تھا کہ 2 ستمبر 1945 ان کی سر زمین پر جنگ کا آخری دن تھا ، مگر24 فروری 2022 کو روس نے ایک بد صورت جنگ کی شروعات کرکے ان کی اس خوش فہمی کو مٹی میں ملادیا ہے۔

کیف کے علاوہ خارکیو اور ماریوپول جیسے شہر ملبے کا ڈھیر

یوکرین پر روس کے حملوں میں دارالحکومت کیف کے علاوہ خارکیو اور ماریوپول جیسے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں دنیا نے تباہی و بربادی کے جو مناظر افغانستان، عراق، شام، لیبیا، سوڈان اور بوسنیا وغیرہ میں دیکھے تھے، وہی مناظر آج یوکرین کی سرزمین پر نظر آ رہے ہیں۔

یوکرین کی جانب سے مسلسل الزام لگایا جا رہا ہے کہ روسی فوج میزائل کے ساتھ ساتھ ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے اور روسی ہتھیاروں نے عام شہریوں کی جان لی ہے۔ دوسری جانب میدان جنگ سے آنے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ روسی فوج کو بھی بڑانقصان پہنچ رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ روس اور یوکرین کی اس جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ کیوں کہ یہ جنگ صرف دو ملکوںکا باہمی تصادم یا سب سے بڑے ملک کی خود سے چھوٹے ملک کو نگل لینے کی کوشش ہی نہیں، ایک نفسیاتی جنگ اور وقار کا مسئلہ بھی ہے۔

یہ جنگ اب دو ملکوں کی سرحدوں سےکافی آگے نکل چکی ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے تعلقات میں بھی تلخی آ گئی ہے۔ یہی دونوں ملک دنیا کو اپنی طاقت کا احساس کرانے کے لئے کبھی کسی ملک پر چڑھائی کر دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے ملک یا حکمراں کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلاتے ہیں، لیکن یورپ کی موجودہ نسل براہ راست پہلی بار خونریزی اور تباہی کے مناظر کا خود مشاہدہ کر رہی ہے۔

روس امریکہ تعلقات ٹوٹنے کے دہانے پر

روس کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر بائیڈن کے حالیہ بیان کے حوالے سے امریکی سفیر کو طلب کر لیا۔ روس کی طرف سے کہا گیا کہ بائیڈن کی وجہ سے روس امریکہ تعلقات ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں۔ جنگ کوتقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے اور روسی فوج اب یوکرین پر قبضہ کرنے کے لیے ہائپر سونک اور کروز میزائلوں سے فوجی اہداف کو نشانہ بنا رہی ہے۔

ایک طرف روسی جارحیت میں شدت آتی جا رہی ہے تو دوسری جانب یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ بات چیت کے ساتھ یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر اس میں ناکامی ہوئی تو اس سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو روس اور یوکرین کی جنگ کے درمیان بھی یہی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جو پہلی جنگ عظیم اور بعد میں دوسری جنگ عظیم کا سبب بنی تھی۔ اب حالات ایسے ہیں کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری محدود جنگ کسی بھی وقت دنیا کو اپنی زد میں لے سکتی ہے۔

یہ جنگ بین الاقوامی تعلقات میں کئی تبدیلیاں لائے گی

جن مغربی ملکوں کے عوام اس جنگ کو ’ناقابلِ یقین‘ تصور کرتے ہیںاور جو جنگوں اور تنازعات کو صرف باقی دنیا میں دیکھنے کے عادی ہیں، انہیں یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ آج وہ خود اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ تقریباً 77 سال تک اپنے یہاں امن اور باقی دنیا میں جنگ و شورش دیکھنے والے یورپی عوام کے وہم و گمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ ٹیلی ویژن پر نظر آنے والے مناظر ان کے گلی محلوں میں بھی برپا ہو سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ موجودہ جنگ ایک پر امن معاہدے کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ بین الاقوامی تعلقات میں کئی تبدیلیاں لائے گی۔

اگر آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی طرح دنیا وسیع پیمانے پر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے اور عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف ناٹو ملکوں کے ساتھ مغربی ممالک کھل کر یوکرین کے ساتھ ہیں تو دوسری طرف جوہری طاقت روس کو چین کی کھلی حمایت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی پڑوسی ملک بیلاروس، ایران اور شام نے بھی روس کی حمایت کی ہے۔

عالمی جنگ کا خطرہ

ایسی صورت میں عالمی جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہیں روسی صدر پوتن اب یوکرین سے خالی ہاتھ لوٹنے کو تیار نہیں ہیں، جبکہ یورپی یونین اور امریکہ یوکرین کو بچانا چاہتے ہیں۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کس طرح دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہےاور آنے والے دنوں میں یہ دونوں گروپ تیسری عالمی جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔اگر تیسری عالمی جنگ نہ بھی ہو تو موجودہ بحران یوکرین سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔

ناٹو اتحاد کو اندیشہ ہے کہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور وہ نہیں جانتا کہ یوکرین کے بعد روسی صدر پوتن کا منصوبہ کیا ہے؟ ایسا بھی مانا جا رہا ہے کہ روس کی نظریں سابق سوویت یونین یعنی یو ایس ایس آرمیں شامل کئی سابق ریاستوں پردوبارہ قبضہ کرنے یا انھیں واپس لینے پر مرکوزہیں۔بیلاروس اور تاجکستان میں روس کی فوجی سرگرمیاں اس امکان کو تقویت دیتی ہیں کہ پوتن کا ’روس منصوبہ‘ ابھی شروع ہوا ہے۔

روس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟

روس فی الحال یوکرین یا اس کے کچھ علاقوں پر اپنا کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟ کیا لٹویا، لِتھوانیا وغیرہ اس کا اگلا نشانہ ہو سکتےہیں؟ سابق سوویت یونین کی15 سابق ریاستیں ہیں جن پرقوم پرست روسی اپنا حق سمجھتےہیں اور اپنی پچھلی ناکامیوں کے لیے مغرب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

بہر حال، اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں امن کی باتیں محض دکھاوا ہیں،تو بیجا نہ ہوگا۔ بلکہ حالات بتاتے ہیں کہ پوری دنیا’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے فارمولے چل رہی ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور دوسرے ملکوں نے یوکرین پر حملے کی پاداش میں روس پر پابندیاں عاید کی ہیں۔ مگر دنیا اگر چاہتی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے تواسے اپنےمنافقانہ طرز عمل کوچھوڑنا ہی ہو گا۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)
yameen@inquilab.com

مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں