اسلامی نظام حکومت اور نظام ملوکیت میں فرق

خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد مسلم اکثریتی ممالک میں وہی نظام رائج ہو گیا جو رومی بادشاہوں، ایرانی شہنشاہوں اور ہندوستانی حکمرانوں میں تھا۔

اس حصے میں ہم آپ کو اسلامی نظام حکومت اور شاہی نظام کا فرق بتائیں گے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وسیع ملک کی ذمہ داری سنبھالنی پڑی تو آپ نے کسی شہنشاہ یا بادشاہ کی طرح حکومت نہیں کی بلکہ دنیا کے سامنے حکمرانی کی ایک ایسی مثال پیش کی جس میں ہمدردی، صلہ رحمی، انسانیت و مہربانی کے عناصر شامل تھے۔ ایک وسیع ملک کا حکمران بننے کے بعد بھی انہوں نے اپنے رہن سہن اور رکھ رکھاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

نبی کی شہنشاہی میں فقیری

حضرت محمد ﷺ نے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے نہ کوئی محل بنایا، نہ دربار سجایا، نہ اپنی حفاظت کے لیے محافظ تعینات کیے، نہ فوج بنائی، نہ ہیرے جواہرات سے مزین تاج پہنا اور نہ اپنے لباس میں کوئی تبدیلی لائی۔ کندھے پر سیاہ کمبل، جسم پر سادہ لباس، مقدس پیروں میں پرانے جوتے اور ہاتھوں میں اسلامی ریاست کی لگام اس حکمران کی پہچان تھی جسے زمین پر اس لئے اتارا گیا تاکہ انسانوں کو سیدھے راستے (صراط مستقیم) پر چلنے کی دعوت دے سکیں۔ بنی اکرم ﷺ کی بنائی ہوئی مسجد میں کھجور کے پتوں کی چھت کچی دیواروں پر پڑی تھی اور اس میں بیٹھ کر حضرت محمد ﷺ اپنی حکمت عملی تیار کرتے تھے، وہ وعظ و نصیحت کرتے تھے اور ان کے پاس کوئی فوج نہیں تھی۔ جب کوئی حملہ ہوتا تھا تو مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جمع ہونے کی دعوت دی جاتی تھی اور مدینہ شہر کے اندر یا باہر کسی میدان میں جھنڈا بلند کیا جاتا تھا جس کے بعد مجاہدین وہاں جمع ہونا شروع ہوتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وصال کے بعد دنیا ایک ایسے اسلامی نظام حکومت سے متعارف ہوا جسے خلافت راشدہ کا نام دیا گیا۔

خلافت راشدہ

خلافت راشدہ کے اس نظام میں خلیفہ (حکمران) انسان جیسی زندگی بسر کرتا تھا۔ خلیفہ کا گھر، لباس اور رہن سہن سادہ ہوتا تھا اور وہ ایک عام آدمی کی طرح بغیر محافظوں کے رہتے تھے۔ خلیفہ کو بیت المال (سرکاری خزانے) سے بھی وہی تنخواہ ملتی تھی جو ایک عام ملازم کو ملنے والی اجرت کے برابر ہوتی تھی، لیکن چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوگیا۔

ملوکیت اور شان و شوکت والی حکمرانی کا آغاز

خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد مسلم اکثریتی ممالک میں وہی نظام رائج ہو گیا جو رومی بادشاہوں، ایرانی شہنشاہوں اور ہندوستانی راجاؤں میں تھا۔ مسلم شہنشاہوں نے بھی بڑے بڑے محلات بنا کر رہنا شروع کردیا، سونے چاندی کے زیورات اور مہنگے کپڑے ہی حکمران کی پہچان سمجھے جانے لگے۔ درباریں سجائے جانے لگے، فوجی افسروں اور سپاہیوں کو بھاری بھرکم تنخواہوں پر تقرری کی جانے لگی، عظیم الشان اور پرتکلف مساجد تعمیر کروانے کا رواج بھی شروع ہوگیا۔ بہت سے شاہی خاندانوں نے اپنے ناموں کے آگے خلیفہ کا لفظ لگا کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی بھی کوشش کی لیکن کسی مسلمان نے انہیں خلیفہ کا اصل درجہ نہیں دیا بلکہ حکمران سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا۔

جب بادشاہوں نے خلافت کا نقاب اوڑھ کر مسلم ممالک پر حکومت کرنا شروع کی تو اس سے صرف حکمران اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا ہی ہوا اور دربار تک عام لوگوں کی رسائی مشکل ہو گئی اور پھر جس حکمران کو جو طاقت ملی اس کی مدد سے اس نے اپنی سلطنت کو ترقی دینے کے لیے کام شروع کر دیا۔ حالانکہ یہ طرزِ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے بالکل خلاف تھا کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کسی ملک پر حملہ نہیں کیا، آپ نے صرف اپنی حکومت کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے جنگیں لڑیں۔

اسلامی حکومت کی شاہی نظام میں تبدیلی

رسول اللہ ﷺ کی وفات کو چالیس سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اسلامی حکومت کو شاہی نظام میں بدلنے کے لئے خلافت راشدہ کے نظام پر حملہ ہوا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو تباہ کن جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت علی کی شہادت کے ساتھ ہی اسلامی نظام حکومت مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور پھر بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی جس کی سب سے بڑی قیمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں (اہل بیت) کو چکانی پڑی۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف ساٹھ سال بعد شام کے حکمران یزید کی عظیم فوج نے عراق میں کربلا نامی مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور خاندان کے دیگر افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ یہ ساری باتیں سن کر آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ دوسرے مذہب کا کیا احترام کرے گا جو اپنے ہی مذہب کے بانی کے خاندان والوں کو شہید کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

اس حصے کے آخر میں بتاتے چلیں کہ امام حسین علیہ السلام کی دل سوز شہادت کے بعد اموی خاندان کے حکمران یزید کو حضرت مختار ثقفی اور حضرت عبداللہ ابن زبیر کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت مختار کی افواج کے ساتھ ہندوستانیوں کا ایک دستہ بھی یزید کی فوجوں سے متصادم ہوا۔ اگلے حصے میں اس دستے سے متعلق معلومات پیش کریں گے۔ (جاری)

1 – پہلی قسط

2 – دوسری قسط

3 – تیسری قسط

4 – چوتھی قسط

5 – پانچویں قسط

6 – چھٹی قسط