عراق انتخابات کے نتائج سے حزب اختلاف بھلے ہی مطمئن نہ ہو، لیکن باقی دنیا میں مقتدیٰ الصدر کی کامیابی کو عراق کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا جا رہا ہے
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
میں خوبصورتی، علم و فضل حکمت و دانشمندی کا گہوارہ رہی ہے۔ عراق اسلام اور مسلمانوں کی علمی، دینی، سیاسی، مہتم بالشان تاریخ کی حامل سر زمین بھی ہے۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں امام حسن بصری، رابعہ بصری، حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی، شیخ شہاب الدین سہروردی، سیدالطائفہ جنید بغدادی، ذوالنون مصری نے اسلام، عرفان و تصوف کی آبیاری کی۔ یہی وہ سر زمین ہے جہاں عباسیوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے ایک ایسی عظیم الشان سلطنت کا مرکز بنایا۔
عراق ہی وہ سر زمین ہے جس کا انتخاب چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی ؓ نے مدینہ منورہ کے بعد اسلامی دارالسلطنت کی شکل میں کیا۔ یہیں وہ تاریخ بھی رقم ہوئی، جس میں نواسہ رسول، اہل بیت اور ان کے رفقا کو دریائے فرات کے کنارے کربلا کے میدان میں شہید کر دیا گیا۔ یہاں کے ہوش رُبا طلسماتی محلات کی آرائش و زیبائش، شعر و سخن اور الف لیلوی قصے بھی تاریخ میں اپنا اہم مقام رکھتے ہیں۔ بابل کے باغات اور دیگر مختلف قسم کے حسن و جمال عراق کا طرہ امتیاز رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عراق کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں کی تباہی و بربادی کی داستانیں بھی کم قابل ذکر نہیں ہیں۔ یہاں بار بار ہلاکؤوں، چنگیزوں اور امریکیوں کی شکل میں مختلف قسم کے طوفان نازل ہوتے رہے۔ تاریخی علم و فضل کی نادر کتابوں سے پُر بغداد کی لائبریریاں، عراق کے طول و عرض کو معطر رکھنے والے دجلہ و فرات کی فرحت بخش ہوائیں، بلند و بالا عمارتیں اور عراق کی تابناکی باہری طاقتوں سے کبھی برداشت نہ ہو سکی۔ غرض یہ کہ اس حسین و خوبصورت اور شان و شوکت والے ملک کو بار بار تہس نہس کیا گیا۔ جتنی بار اس کی تباہی و بربادی کی داستان لکھی گئی، اتنی ہی بار عراقی قوم نے نسل در نسل چلنے والی خداداد صلاحیتوں اور اپنی استعداد کی بنیاد پر اس خون آلود مٹی کو زرخیز کر دیا۔
عراق کی سیاسی، معاشی و سماجی، تہذیبی و ثقافتی صورت حال
تاریخ نے اور باہری طاقتوں نے عراق میں ظلم و بربریت کی جو بھی داستانیں لکھیں، لیکن دور حاضر میں اپنوں نے بھی یہاں تباہی و بربادی کے کم نشانات نہیں چھوڑے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں کے حالات و واقعات پر نظر ڈالنے سے ہی یہاں کی صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔ راقم الحروف نے 2016 میں اپنے عراق دورے کے دوران عراق کی سیاسی، معاشی و سماجی، تہذیبی و ثقافتی صورت حال کو کتابوں سے نکل کر اپنی آنکھوں سے دیکھا تو تصویر اور بھی واضح طور پر سامنے آئی۔ باہری طاقتوں نے براہ راست حملہ آور ہو کر یہاں تباہی و بربادی کی جو خونی داستان رقم کی وہ اپنی جگہ، لیکن ان ہی باہری طاقتوں کے آلہ کار بن کر اندرونی طاقتوں نے عراق کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو جس طرح تہس نہس کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ مسلکی نفاق اور کچھ سیاسی طالع پسندوں کے اپنے مفسدانہ عزائم نے عراق کو خون آلود کر دیا۔
2003 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بیجا حملوں اور صدام حسین کے اقتدار کے خاتمے کے بعد عراق مسلسل انار کی اور غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔ سیاسی عدم استحکام یہاں کا مقدر بن چکا ہے۔ فرقہ وارانہ اور مسلکی خطوط پر تقسیم ہو چکے عراق میں اب تک کوئی ایسی سیاسی قیادت سامنے نہیں آ سکی ہے جو اس ناسور کو ختم کر سکے۔ 2003 کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں نے یا تو اس سلسلہ میں کوئی پیش قدمی نہیں کی یا پھر انہیں کامیابی نہیں ملی۔
عراق انتخابات میں شیعہ مذہبی پیشوا مقتدیٰ الصدر کی جماعت ایک بڑی فاتح
حال ہی میں یہاں پارلیمانی انتخابات منعقد کئے گئے ہیں۔ ان انتخابات میں شیعہ مذہبی پیشوا مقتدیٰ الصدر کی جماعت ایک بڑی فاتح کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان کی جماعت نے 70 سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی قیادت والی جماعت دوسرے نمبر پر ہے۔ انتخابی نتائج کے بعد بہت ممکن ہے کہ مقتدیٰ الصدر عراق کی باگ ڈور سنبھال لیں۔ پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 2019 میں عراق میں بے روزگاری، مہنگائی اور ارباب اقتدار کی مالی بدعنوانیوں کے خلاف احتجاجی تحریک سے ابھرنے والے اصلاحات کے حامی امیدواروں نے 329 رکنی پارلیمنٹ میں کئی نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ مگر ایران کی حمایت یافتہ جماعتوں کو انتخابات میں دھچکا لگا ہے اور انھوں نے 2018 میں منعقدہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کی ہیں۔
واضح رہے کہ ایران کی حمایت یافتہ شیعہ جماعتوں سے وابستہ مسلح ملیشیا پر مظاہرین کی ہلاکتوں کے الزامات عاید کیے گئے تھے۔ ان ملک گیر مظاہروں میں کم سے کم 600 افراد شیعہ ملیشیا گروپوں کی تشدد آمیز کارروائیوں میں ہلاک ہوگئے تھے۔ مقتدیٰ الصدر کے زیر قیادت اتحاد نے 2018 کے انتخابات میں 54 نشستیں جیتی تھیں اور حکومتوں کی تشکیل میں ان کا کردار اہم رہا تھا۔ در اصل مقتدیٰ الصدر کو ایک معتدل، بے باک اور اصلاح پسند لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ وہ عراق میں کسی بھی قسم کی غیرملکی مداخلت کے مخالف ہیں، خواہ وہ امریکہ کی طرف سے ہو، جس کے خلاف انھوں نے 2003 کے بعد محاذ آرائی کی تھی یا ہمسایہ ملک ایران کی طرف سے، جس کی انھوں نے عراق کی سیاست میں مداخلت پر تنقید کی ہے۔ مقتدیٰ الصدر اگر ایران کے دورے کرتے ہیں تو انھیں سعودی عرب جانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
مقتدیٰ الصدر کے انتخابی اتحاد کی کامیابی کا ایک مثبت پہلو
مقتدیٰ الصدر کے انتخابی اتحاد کی کامیابی کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے عراق کے دیگر عرب ممالک سے تعلقات میں مزید بہتری کے امکانات ہیں، کیوں کہ مقتدیٰ الصدر کا جھکاؤ اپنے پیش رو نوری المالکی اور حیدر العبادی کی طرح ایران کی طرف بہت زیادہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں مقتدیٰ الصدر نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سابق وزرائے اعظم حیدر العبادی اور نوری المالکی کے سخت ناقد بھی ہیں، ان کے بقول ان دونوں وزرائے اعظم نے ملک میں فرقہ وارانہ سیاست کی مضبوط بنیادیں رکھ کر عراق کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے۔
راقم الحروف نے اپنے دورہ عراق کے دوران عراق کی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات سے ملاقات کے دوران اس فرقہ واریت کو محسوس بھی کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مقتدیٰ الصدر کو ایک امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عراق ہی نہیں، باقی دنیا بھی محسوس کر رہی ہے کہ 2003 کے بعد عراق میں جس طرح کے دگرگوں حالات پیدا ہوئے ہیں، ان سے مقتدیٰ الصدر ہی آسانی سے نکال سکتے ہیں۔ سابقہ قیادتوں نے پوری دنیا کو مایوس کیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ عراق کے سامنے داعش نامی عفریت کا چیلنج بھی ہے۔ سابقہ حکومتوں نے بھلے ہی داعش کو کافی حد تک کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن ابھی بھی اس کا چیلنج اور خطرہ برقرار ہے۔ اس خطرے سے نمٹنا کسی بھی سیاسی قیادت کے لئے آسان نہیں ہوگا۔
عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد پانچ پارلیمانی انتخابات مکمل
عراق میں صدام حسین کے زوال کے بعد پانچ پارلیمانی انتخابات ہو چکے ہیں۔ 2003 میں امریکہ کی قیادت میں فوجی اتحاد کی عراق پر چڑھائی اور سنی صدر صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد شیعہ گروپوں اور جماعتوں کا حکومت اور حکومت سازی کے عمل میں پلڑا بھاری رہا ہے، لیکن ان سب کے باوجود عراقیوں کی زندگیوں میں خوشحالی اور امن و سکون نہیں آ سکا۔ ملک کا بنیادی ڈھانچا پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ علاج و معالجے اور تعلیم کا نظام ناقص ہے، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں، عوام کو بجلی، پانی اور سڑک جیسی بنیادی چیزوں کی قلت کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایک مضبوط، مستحکم اور غیر جانبدار حکومت ہی عراق کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر لے جا سکتی ہے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com