یو پی ایس سی امتحانات کے حالیہ نتائج میں مسلمانوں کی نمائندگی

یو پی ایس سی امتحانات کے حالیہ نتائج مسلمانوں کی نمائندگی کے لحاظ سے مایوس کن ضرور ہیں، لیکن یہی حالات مزید بہتری اور جد و جہد کا راستہ بھی کھولتے ہیں

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

سول سرو‎سز یعنی یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کو ہندوستان کا سب سے اہم اور باوقار امتحان سمجھا جاتا ہے۔ زندگی میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھنے والےتقریباً ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ملک و ملت کا نام روشن کرے۔

ظاہر ہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے والے امیدوار سے نہ صرف یہ کہ خاندان، بلکہ عزیز و اقارب، پوری سوسائٹی اور قوم و ملت کو بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ اس امتحان میں کامیاب امیدواروں کی کارکردگی اخبارات و رسائل اورمیڈیا وغیرہ میں شہ سرخیاں بنتی ہے۔ ان میں کئی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ جو زندگی میں کوئی مقام حاصل کرنے کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ کیوں کہ پر جوش اور حوصلہ مند کچھ نوجوان محدود وسائل کے باوجود اور سول سروسز وغیرہ میں کوئی خاندانی بیک گراؤنڈنہ ہونے کے باوجوداپنی کامیابی سے ہر کسی کو اپنا قائل کرلیتے ہیں۔ نہ تو غربت، نہ ہی وسائل کی کمی اور نہ ہی والدین وغیرہ کی مناسب سرپرستی کا فقدان ان کی کامیابی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ ان کی سچی محنت اور لگن، کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور با مقصد زندگی گزارنے کا جذبہ ہی ان کی کامیابی کا اصل ضامن ہوتا ہے۔

کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی میں سول سروسز میں کامیاب نوجوانوں کا کلیدی رول ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہی لوگ افسر بن کر مختلف شعبوں میں اپنی حسن کارکردگی اور طریقہ کار سے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کی نئی عبارت لکھتے ہیں۔ یقیناً یہ لوگ دوسرے نوجوانوں کے لئےنئی راہیں کھولتے ہیں اور ان میں اعتماد اور جستجو کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔

حال ہی میں 2020 کے یو پی ایس سی کے حتمی نتائج کا اعلان کیا گیا ہے۔ سبھی کامیاب نوجوان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ خاص طور پر وہ مسلم نوجوان جنھوں نےتمام نا مساعد حالات کے باوجود ملک کے اس باوقار امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس مرتبہ کامیاب ہونے والے مسلم امیدواروں کی تعداد 31 ہے، جو آبادی کے لحاظ سے تقریباً 4 فیصد ہے۔ اگرچہ یہ تعداد کافی کم ہے، لیکن پھر بھی جن حالات میں ان لوگوں نے تیاری کی اور کامیابی کی منزل کو پہنچے، وہ قابل ستائش ہے۔

ویسے تو عام طور پر ہر سال مسلم طلبہ کی کامیابی کا فیصدتقریباً اس کے آس پاس ہی ہوتا ہے۔ لیکن جب کامیاب امیدواروں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے تو فکر اور مایوسی ہونا فطری ہے۔ کیوں کہ گزشتہ برس یعنی 2019 کے امتحانات میں 42 مسلم امیدوارکامیاب ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ایک بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ 10 سال کا تناسب دیکھیں تو یہ کمی و بیشی ہر سال ہوتی ہے۔ 2018 میں کل 759 امیدواروں میں 28 مسلم کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ2017 میں کل 990 میں 50 اور 2016 میں 52 مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ تعداد یقیناً حوصلہ افزا تھی۔ اس کے بعد مسلم طلبہ اور یو پی ایس سی کی کوچنگ کا اہتمام کرنے والے اداروں کو چاہئے تھا کہ وہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

گزشتہ 10 سال کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو 2016 میں کل 1099 امیدواروں میں 52 مسلم امیدواروں کی کامیابی سب سے زیادہ تھی۔ جبکہ اس سے پہلے 2015 میں کل 1078 میں34، 2014 میں کل 1236 میں 38، 2013 میں کل 1122 میں34، 2012 میں کل 998 میں 30 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ اس سے پہلے تو مسلم امیدواروں کی اور بھی مایوس کن کارکردگی رہی۔ کیوں کہ 2011 میں کل 920 امیدواروں میں محض 21 اور 2010 میں کل 875 میں بھی محض 21 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے، جبکہ 2009 میں کل 791 امیدواروں میں 31 مسلم امیدوار کامیاب ہو سکے۔ ان اعداد و شمار سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم امیدواروں کی کامیابی کا تناسب کافی کم ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ مسلم امیدواروں کی بڑی تعداد ناکام ہوتی ہے۔

در اصل ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یو پی ایس سی کے اس باوقار امتحان میں کتنے مسلم طلبہ حصہ لیتے ہیں۔ کامیابی کا تناسب دیکھنے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر بھی غوروفکر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ پورے ملک میں پرائمری سطح سے لیکر سیکنڈری، سینئر سیکنڈری اور ہائر ایجوکشن تک مسلم طلبہ کا تناسب کتنا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔

سچر کمیٹی کی سفارشات میں بھی مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر آئینہ دکھایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بے حد کم ہے، مگر یہ تعداد اس لئے کم نہیں ہے کہ مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ ان امتحانات میں مسلم طلبہ بہت کم تعدادمیں شریک ہوتے ہیں۔ لہذا ملت کے بہی خواہوں اور تعلیمی میدان میں کام کرنے والے مخلص افراد یا اداروں کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلم نوجوانوں کو کس طرح آمادہ کیا جائے کہ وہ یو پی ایس سی اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کریں اور ان میں شریک ہوں۔

اس کے لئے یقیناً مسلم نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر بیداری کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہندوستان کے مسلمان جس دور سے گزر رہے ہیں، وہ شاید آزاد ہندوستان میں ان کے لئے سب سے خراب دور کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، انہیں ان کا کام کرنے دیں، لیکن تعلیمی میدان میں کام کرنے والے افراد کو اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مسلم طلبہ کو طالب علمی کے زمانے سے ہی یہ باور کرانا ہوگا کہ سرکاری ملازمتوں اور بالخصوص اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میںان نوجوانوں کی شمولیت کیوں ضروری ہے۔ انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ سول سروسز میں شامل ہونے والے نوجوانوں کو دیگر پیشہ وارانہ کورسز کے مقابلے میں کم پیسے صرف کرنے ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو ظاہر ہے وہ اعلیٰ سرکاری افسر بنیں گے اور وہ یقیناً نہ صرف ملت کے لئے،بلکہ پورے ملک کیلئے سرمایہ ٔ افتخارہوں گے۔

ان مسلم طالب علموں کو بتانا ہوگا کہ اعلیٰ سرکاری افسران کے پاس کتنے زیادہ اختیارہوتے ہیں اور ان کے ذمہ کتنے اہم کام ہوتے ہیں۔ وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ ملک کی خدمت بھی کرتے ہیں اور اُنہیں معاشی پریشانیوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ افسر بن جانے کے بعد مراعات کے ساتھ ساتھ جو عزت و وقار حاصل ہوتا ہے،وہ دوسری ملازمتوں میںحاصل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کی باتیں جب ہم سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری سطح سے ہی مسلم طالب علموں کے ذہنوں میں ڈالیں گے تو یقیناً ان کے اندر ایک شوق اور جذبہ پیدا ہوگا۔ وہ یو پی ایس سی اور سول سروسز کی اہمیت و افادیت کو بھی بخوبی سمجھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی اساتذہ اور والدین بھی ان طلبہ کی ذہن سازی میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچر کمیٹی کی سفارشات سامنے آنے کے بعد ملت میں تعلیمی لحاظ سے بیداری پیدا ہوئی ہے اور بہت سے ادارے اور تنظیمیں اس سلسلہ میں مخلصانہ انداز میں کام بھی کر رہی ہیں۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں تعلیم و تربیت کا انتظام بھی پہلے سے بہتر ہوا ہے، لیکن ابھی اس میں مزید کام کرنے اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر مقابلہ جاتی امتحانات کے تعلق سے صاحب حیثیت لوگوں کو چاہئے کہ وہ ضرورت مند اور ہونہار ایسے طلبہ کی مدد کے لئے آگے آئیں جو وسائل اور پیسے کی قلت کے سبب اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملت کے بہی خواہ اور ذمہ دار افراد کو چاہئے کہ وہ مل کر بیٹھیں اور اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ تیار کریں۔ بالآخر اس میں سب سے اہم کردار مسلم طالب علموں یا مسلم نوجوانوں کو ہی ادا کرنا ہوگا۔ ابھی وقت ہے کہ وہ اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کریں اور اپنے آپ کو تعلیم کے لئے وقف کر دیں۔

یہاں تمہاری طرف کوئی یوں نہ دیکھے گا

یہ جادوؤں کا نگر ہے کمال کرتے رہو

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

[ادارے کا مضمون نگار کے آراء و افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں]