افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد اب امریکہ تیسری ناکام عالمی طاقت

برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد امریکہ تیسری عالمی طاقت ہے، جو افغانستان سے اپنی پیشانی پر ناکامی کا داغ لے کر واپس لوٹا ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

افغانستان میں 20 سال کے بعد پھر طالبان کی واپسی ہو گئی۔ امریکہ ایک لا حاصل جنگ کے خاتمے کے بعد یہاں سے روانہ ہو گیا، لیکن وہ اپنی ناکامی اور رسوائی کی ایک لمبی داستان پیچھے چھوڑ گیا۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جس وہائٹ ہاؤس سے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2001 میں افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تھا، 20 برس کے بعد اُسی وہائٹ ہاؤس سے امریکی صدر جو بائیڈن 12 اگست 2021 کو اس امکان کا اظہار کر رہے تھے کہ طالبان تین ماہ کے اندر کابل پہنچ سکتے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے تین دن میں ہی کابل پر اپنا پرچم لہرا دیا۔

برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد امریکہ تیسری عالمی طاقت ہے، جو افغانستان سے اپنی پیشانی پر ناکامی کا داغ لے کر نکلا ہے۔ لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں افغانستان کو جیتنے کی کوشش میں ناکام کیوں ثابت ہوئی ہیں؟ دنیا بھر کے تجزیہ کار اور ماہرین اس امر پر غور و خوض کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اتنی غربت اور مفلسی کے باوجود آخر افغان قوم کیسے عالمی طاقتوں سے لوہا لیتی رہی ہے اور انہیں شکست سے دو چار کیا ہے۔

مختلف قسم کے شبہات اور خدشات کو دور کرنا بھی طالبان کی ایک بڑی ذمہ داری

یہ الگ بات ہے کہ اب افغانستان کی کمان جن ہاتھوں میں آئی ہے، ان پر دنیا کو مختلف قسم کے شبہات اور خدشات ہیں۔ اب ان تحفظات کو دور کرنا بھی طالبان کی ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ اسی لئے اب یہ سوال زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ آخر طالبان جس وعدے اور دعوے کے ساتھ واپس آئے ہیں، اس کو کس حد تک اور کیسے پورا کر پائیں گے؟ ابھی تک طالبان نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے جنگ کی، لیکن اب ملک کو آگے لے جانا اور دنیا کے ساتھ چلنا بھی ان کے لئے ایک جنگ ہے۔ اس جنگ میں کامیابی و ناکامی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ان کا انداز حکمرانی 2001 سے پہلے والا ہوگا یا وہ 2021 میں جس تبدیلی کے ساتھ آئے ہیں، اس پر عمل کریں گے۔

امریکہ نے افغانستان سے انخلا مکمل کر لیا

تمام کشمکش اور تذبذب کے درمیان امریکہ نے آخر کار ڈیڈلائن سے کچھ وقت پہلے ہی افغانستان سے انخلا مکمل کر لیا۔ وہاں موجود آخری امریکی فوجی بھی رات 12 بجے سے پہلے ہی کابل ایئرپورٹ سے روانہ ہو گئے۔ کابل سے آخری امریکی پرواز کی روانگی کا اعلان طالبان نے کیا، جس کے فوراً بعد امریکی حکام نے تصدیق کی کہ امریکہ نے افغانستان سے انخلا مکمل کر لیا ہے۔

اس آخری پرواز کے ساتھ ہی 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی 20 سالہ امریکی مہم ختم ہو گئی۔ امریکہ کی طویل ترین جنگ میں لاکھوں افغان شہری، ہزاروں امریکی، ناٹو، و افغان فوجی اور پولیس اہلکار، 50 ہزار طالبان و دیگر امریکہ مخالف مزاحمت پسند ہلاک ہوئے۔ افغان جنگ کی نگرانی 4 امریکی صدور نے کی، جبکہ اس پر ایک اندازے کے مطابق 2 کھرب ڈالر خرچ ہوئے۔ پنٹا گون نے بھی امریکہ کا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے کی تصدیق کردی ہے۔

امریکی فوج کے انخلا مکمل ہونے پر طالبان نے کہا ’ہم نے تاریخ رقم کردی‘۔ یقیناً یہ طالبان کے لئے کسی تاریخ سے کم نہیں ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مکمل انخلا کے بعد اب باضابطہ طور پر افغانستان کی کمان طالبان کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔ لیکن افغانستان میں اقتدارپر قبضہ کرنا اور حکومت چلانا دونوں الگ الگ ہیں۔ سفارتی محاذ پر دنیا میں الگ تھلگ پڑے طالبان کے سامنے سب کو ساتھ لے کر چلنا بھی سب سے بڑا چیلنج ہے۔

طالبان کو افغان عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا

دنیا سے پہلے طالبان کو افغان عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ 1996 سے 2001 کے دور اقتدار میں طالبان نے اپنی شدت پسند شبیہ کے سبب افغان عوام کے ساتھ دنیا کے اعتماد کو بھی متزلزل کیا تھا۔ اس اعتماد کو بحال کرنا طالبان کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان دنیا کے غریب ترین ملکوں کی فہرست میں کافی اوپر ہے۔

2001 میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بڑی تعداد میں بیرون ملک سے امداد حاصل ہوئی۔ طالبان کی امریکہ میں موجود افغان سینٹرل بینک کے فنڈ تک رسائی نہیں ہے۔ ملک میں بجلی، پانی اور مواصلات جیسے اہم اور بنیادی ڈھانچے کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے، جس کے لئے فنڈ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی افغانستان میں انسانی تباہی کا انتباہ جاری کیا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ طالبان کیسے اس صورت حال کا سامنا کرتے ہیں۔

وہیں دوسری جانب ماہر اور پیشہ ور افراد کی افغانستان سے ہجرت بھی ملک کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ جیسے ہی افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کا سلسلہ تیز ہوا، ملک کے نوکر شاہ، ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، پروفیسر اور یہاں تک کہ طلبہ بھی طالبان کی آمد سے خوفزدہ ہو کر ملک چھوڑنے لگے۔ کسی بھی ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے میں ان افراد کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اگر طالبان ان لوگوں میں اپنا اعتماد قائم نہیں کر سکے تو یہ افغانستان کے مستقبل کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔

مزاحمتی گروپ کی موجودگی طالبان کے لئے ایک چیلنج

اس کے ساتھ ہی ابھی افغانستان میں مختلف مزاحمتی گروپ موجود ہیں۔ وہ بھی طالبان کے لئے ایک چیلنج ہیں۔ ان میں خاص طورپر پنجشیر کے شیر کے نام سے مشہور احمد مسعود کا نام سر فہرست ہے۔ حالانکہ مختلف خبروں کے درمیان افغان مزاحمتی تحریک کے رہنما احمد مسعود کا کہنا ہے کہ اگر طالبان طاقت کی تقسیم کے معاہدے پر راضی ہو جائیں تو وہ ان کے خلاف مزاحمت ختم کر دیں گے۔ احمد مسعود 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں، جو کابل کے شمال میں واقع وادی پنجشیر میں موجود ہیں۔

داعش کی سرگرمیاں اور ان کے ارادے ظاہر ہو چکے ہیں۔ کابل ہوائی اڈے پر جو خونریزی ہوئی ہے، اس نے افغان عوام ہی نہیں، خود طالبان کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں کھیچ دی ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی برادری میں خود کو منظوری دلانے کے لئے طالبان کو تگ و دو کرنی ہوگی۔ اکثر ملکوں نے کابل میں اپنے سفارتخانوں اور ہائی کمیشنوں کو بند کر دیا ہے۔ اگر چہ بدلے رخ کے سبب پاکستان، روس، چین، ایران اور قطر جیسی علاقائی طاقتوں کے ساتھ فی الحال طالبان کے روابط قائم ہیں۔

افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد ہندوستان کی بات چیت

یہ الگ بات ہے کہ ابھی کسی نے طالبان کو با قاعدہ طور پر منظوری نہیں دی ہے۔ ادھر کافی کشمکش کے بعد اس سلسلہ میں ہندوستان کی جانب سے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ ہندوستان نے افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد پہلی بار ان سے بات چیت کی ہے۔ قطر میں ہندوستان کے سفیر دیپک متل طالبان قیادت کی گزارش پر دوحہ میں موجود سینئر طالبان لیڈر شیر محمد عباس سے ملاقات کی اور افغانستان کے دہشت گردوں کے لئے استعمال پر فکر مندی کا اظہار کیا۔ طالبان لیڈر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہندوستانی فکر مندی کو ملحوظ نظر رکھا جائے گا۔ ویسے بھی طالبان کے رخ میں شروع سے ہی تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ وہ اپنے مثبت بیانات پر کتنا عمل کرتے ہیں۔

افغانستان جیسے ملک میں علاقائی اور عالمی طاقتیں پنجہ آزمائی کیوں کرتی ہیں؟

ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ نا مساعد حالات کے باوجود افغانستان جیسے ملک میں علاقائی اور عالمی طاقتیں پنجہ آزمائی کیوں کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک اہم وجہ افغانستان میں زمین کے نیچے دفن بے پناہ دولت ہے۔ افغانستان میں سونے، تانبے کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میں لیتھیم بھی موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی قیمت ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی میں ان کا استعمال طالبان کس طرح کرتے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا۔ کیا وہ یہاں موجود اس بے پناہ قدرتی دولت کا فائدہ اٹھا سکیں گے؟

سوویت اور امریکی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کی پہاڑیوں اور وادیوں میں تانبے، باکسائٹ، خام لوہے کے ساتھ ساتھ سونا اور سنگ مرمر جیسے بہت قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں۔ اگر واقعی ان کا مناسب استعمال ہو جائے تو اس سے حاصل ہونے والی کمائی یہاں کے لوگوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔ فی الحال عالمی طاقتوں کے قبضے اور ان کی مداخلت کے دوران افغانستان کی معیشت کی بنیاد قدرتی وسائل پر نہیں، بلکہ افیون پر ٹکی ہوئی ہے۔ بہر حال، طالبان اپنی اس کامیابی کے ثمر کو کیسے سمیٹیں گے اور سنبھالیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ابھی تک تو جو اشارے ملے ہیں ان سے بہتر کی امید کی جا سکتی ہے۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)