اب جبکہ افغانستان میں طالبان کی واپسی ہو چکی ہے اور امریکہ جا چکا ہے، تو افغانستان کی صورت حال میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے، جس کے اثرات نہ صرف افغانستان یا خطہ کے دوسرے ممالک تک محدود ہیں، بلکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں بھی اس تبدیلی کے اثرات سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
افغانستان میں طالبان کی واپسی سے کسی نہ کسی شکل میں نہ صرف افغانستان کے ہمسایہ ممالک بلکہ دنیا کی دوسری طاقتوں کے ساتھ سب سے زیادہ امریکہ متاثر ہوا ہے۔ امریکہ کی پیشانی پر ہمیشہ کے لئے ناکامی کا ایک اور ٹھپہ لگ چکا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ۲۰؍ سال کی ناکامی کے بعد امریکہ نے راہ فرار اختیار کی ہے اور افغانستان کو ایک طشتری میں رکھ کر طالبان کو پیش کیا ہے، تو بیجا نہ ہوگا۔ اس لئے یہ طالبان کی فتح کم اور امریکہ کی شکست زیادہ ہے۔
اس شکست کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب ٹرمپ انتظامیہ نے ۲۰۲۰ء میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور حملے روکنے کی اپیل کی تھی۔ آخر کار ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو امریکہ کی اس شکست پر مہر بھی ثبت ہو گئی۔ یہ شکست صرف امریکہ کی نہیں ہے، بلکہ ان ۴۲؍ ممالک کی بھی شکست ہے، جنہوں نے دنیا سے طالبان، القاعدہ اور دہشت گردی کے خاتمے کا عہد کرتے ہوئے ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔
بہر حال، اب دنیا کی نظریں دو اہم امور پر مرکوز ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکہ بہادر نے افغانستان سے جس انداز میں راہ فرار اختیار کی ہے، کیا وہ کسی نئی حکمت عملی یا نئی منصوبہ بندی کا حصہ ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ۲۰؍ سال کے بعد ایک بار پھر افغانستان کے اقتدار پر قابض ہونے والے طالبان کے رخ اور طرز حکمرانی میں واقعی کوئی تبدیلی آئے گی؟ یا پھر وہی انداز اختیار کریں گے، جو ۲۰؍ سال پہلے دنیا نے دیکھا تھا؟
افغانستان کے اقتدار میں رونما ہونے والی اس تبدیلی نے سب کو حیران کر دیا
افغانستان کے اقتدار میں رونما ہونے والی اس تبدیلی نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ نہ تو ۲۰؍ سال تک افغانستان کی خاک چھاننے والے امریکہ کو، نہ ہی اشرف غنی کی حکومت اور نہ ہی وہاں کام کرنے والی مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے وہم و گمان میں تھا کہ افغان سیکیورٹی فورسز ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ شاید خود طالبان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے پورے ملک پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیں گے۔
غریب، بے بس اور مجبور عام افغانیوں نے طالبان کا استقبال اسی طرح کیا، جیسے ۲۰؍ سال پہلے ان کے خاتمے کے عہد کے ساتھ قدم رکھنے والے امریکیوں کی آمد پر ان کا کیا تھا۔ ہاں، اتنا ضرور ہوا کہ اس مرتبہ فی الحال کوئی بڑا خون خرابہ نہیں ہوا اور امریکہ اپنے اربوں ڈالر دھول میں اڑاکر اور ہزاروں فوجیوں کی جان گنوا کر یہاں سے ناکامی کا پلندہ باندھ کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ ورنہ لوگوں کا اندازہ یہ تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے تربیت یافتہ افغان سیکیورٹی اہلکاروں سے طالبان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا اور اس صورت میں بڑے پیمانے پر خونریزی کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔
امریکہ کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟
افغانستان میں ۲۰۰۱ ء میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جب حملہ کیا تو اعلان کیا تھا کہ اس کا بنیادی مقصد انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ، افغانستان کی تعمیر نو و بحالی اور عوامی حکومت کی حاکمیت کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ایجنڈے میں افغانستان میں مقامی فورسز کی تربیت بھی شامل تھی، تاکہ وہ ملک میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ اب ۲۰؍ سال کے بعد افغانستان وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ نہ تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، نہ ہی کوئی مضبوط اور مستحکم عوامی حکومت قائم ہو سکی اور نہ ہی افغان سیکیورٹی اہلکار اس بات کے اہل بن سکے کہ وہ ملک کی سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔
یعنی امریکہ اور اس کے حلیفوں کا کوئی بھی مقصد پورا نہیں ہو سکا۔ یہ امریکہ کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر واقعی بیرونی طاقتیں افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتیں تو شاید طالبان کو اقتدار حاصل کرنے میں کچھ دشواریاں پیش آتیں۔ کیونکہ عام افغان ایک پرسکون زندگی چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے امن کے ساتھ ساتھ روٹی، کپڑا اور مکان سب سے بڑے مسائل ہیں۔ انہیں حل کرنے میں اگر سابقہ حکومتیں کامیاب ہوتیں تو عام لوگ ان کا استقبال کرتے۔ اب جبکہ طالبان نے اقتدار پر اپنا کنٹرول کر لیا ہے، تو ان سے بھی عوام کو یہی توقعات ہیں کہ وہ ملک کے بنیادی مسائل کی جانب دھیان دیں گے۔
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد دنیا امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد دنیا تمام خدشات اور تحفظات کے باوجود امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ اور طالبان کے دوسرے دور اقتدار کا آغاز انہی امیدوں کے تحت ہوا ہے۔ بغیر کسی خون خرابے کے اقتدار پر قابض ہونے والے طالبان کے اب تک کے فیصلوں کو دیکھ کر فی الحال تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اس مرتبہ ان کے انداز حکمرانی پہلے سے مختلف ہوگی۔ جنگ کے خاتمے کا اعلان، حریفوں کو عام معافی کا اعلان، سرکاری ملازمتوں اور خواتین سے متعلق فیصلوں سے تو یہی اشارہ مل رہا ہے۔
طالبان نے سرکاری ملازمین سے کہا ہے کہ کابل میں حالات معمول پر آ رہے ہیں، کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام ملازمین معمول کی زندگی کا اعتماد کے ساتھ آغاز کریں اور کام پر واپس آ جائیں۔ انہیں ان کی تنخواہیں دی جائیں گی اور کچھ نہیں کہا جائے گا۔
طالبان کی طرف سے سرکاری ملازمین کے نام پیغام
طالبان کی طرف سے سرکاری ملازمین کے نام پیغام میں کہا گیا ہے کہ اپنے اداروں میں نئے سرے سے کام پر آئیں۔ تاہم اپنے خیالات کو ۲۰؍ سال پہلے کے حالات کے مطابق بحال کریں، رشوت، غبن، تکبر، بدعنوانی، سستی کاہلی اور بے حسی سے بچیں، جو پچھلے ۲۰؍ سال سے کسی وائرس کی طرح سرکاری اداروں میں پھیلی ہوئی ہے۔
طالبان کے سیاسی نائب ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ تمام مرد اور خواتین سرکاری ملازمین کو اپنی ذمہ داریوں پر واپس آنا چاہیے۔ ہم عوام کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں اور عوام کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد متعدد سرکاری ملازمین اور ڈاکٹرز کام پر واپس آگئے ہیں، جبکہ کابل شہر کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ طالبان نے ان کی حفاظت اور بلا خوف وخطر فرائض انجام دینے میں آزادی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وہیں دوسری جانب عام معافی کے اعلان کے حوالے سے طالبان کے کلچرل کمیشن کے رکن انعام اللہ سمنگانی کا کہنا ہے کہ طالبان ملک میں نارمل صورت حال چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی امارات نہیں چاہتی کہ افراتفری کے حالات میں خواتین کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچے۔
طالبان کے رخ میں آئی یہ حیران کرنے والی تبدیلی
طالبان نے خواتین سے کہا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بنیں۔ یہ امر اہم ہے کہ طالبان تحریک افغانستان کے لیے اسلامی امارات کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ خواتین کے تعلق سے طالبان کے رخ میں آئی یہ تبدیلی واقعی حیران کرنے والی ہے۔ کیوں کہ زیر تعلیم لڑکیوں، ملازمت پیشہ اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کے تعلق سے نہ صرف افغانستان میں، بلکہ دنیا بھر میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
طالبان اگر واقعی ملک میں امن و امان اور خوشحالی لانا چاہتے ہیں، افغان عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے اندر بھی تبدیلی لانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ممالک اور عالمی ادارے و تنظیمیں جو افغانستان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، ان کا اعتماد بھی حاصل کرنا ہوگا۔ فی الحال روس، چین، پاکستان اور ایران جیسے ممالک نے طالبان سے امیدیں وابستہ کی ہیں تو ان کو بھی چاہئے کہ وہ بلا تفریق افغانستان کی بہتری اور خوشحالی کے لئے کام کریں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com