نتاشا، دیوانگنا اور آصف کے جیل سے باہر آتے وقت ایسا لگا کہ جیسے وہ جیل کی سیاہ کوٹھری سے باہر نہیں آ رہے، بلکہ کسی فاتحانہ مشن سے واپس آئے ہیں۔ اس سے محسوس ہوا کہ جب تک انصاف باقی ہے، حکمران اختلاف رائے کی آواز دبا نہیں سکتے۔
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
دہلی فسادات: دہلی فسادات کے الزام میں ایک سال سے جیل میں بند طالب علم اور سماجی کارکنان نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا جیل سے باہر آگئے۔ ان کے جیل سے باہر آتے وقت ایسا لگا کہ جیسے وہ جیل کی سیاہ کوٹھری سے باہر نہیں آ رہے، بلکہ کسی فاتحانہ مشن سے واپس آئے ہیں۔ نہ کوئی احساس جرم، نہ کوئی احساس ندامت اور نہ ہی کسی شکست خوردگی کا احساس۔ بھلا یہ احساس ہوتا بھی کیوں؟ ان کی خطا تو بس اتنی تھی کہ انھوں نے حکومت کی ناانصافیوں اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ انھوں نے تو بس ایک جمہوری ملک میں حاصل اپنے حقوق اور اختیارات کا استعمال کیا تھا۔ انھوں نے تو بس مظلومین کے حق میں آواز بلند کی تھی۔
ہاں! ان کی خطا یہ ضرور تھی کہ وہ یہ بھول گئے کہ اب وہ ’نیو انڈیا‘ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں نہ تو آپ حکومت کی غلط اور عوام مخالف پالیسیوں پر آواز بلند کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے کے مقصد سے کی جانے والی قانون سازی کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں۔ حکومت صحیح یا غلط جو کر رہی ہے، جیسا کر رہی ہے، وہی صحیح ہے۔ اب آپ حکومت سے کسی قسم کا سوال نہیں کر سکتے۔
در اصل یہ طالب علم اور سماجی کارکن ۲۰۱۴ء سے پہلے کا ہندوستان سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے اور حکومت کی متعصبانہ اور جابرانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ انھیں کیا معلوم کہ اب اس ملک میں اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا جرم ٹھہرا۔ وہ تو شکر منائیے کہ ابھی عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں اور آج بھی انصاف پسند لوگوں کی ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔ جس کے سبب انصاف کو دم توڑنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ لیکن حالات بتاتے ہیں کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہندوستان کا مستقبل بہت تابناک نہیں ہے۔
ایک نہ ایک دن جھوٹ، فریب اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوگا
نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا کے جیل سے باہر آ جانے سے ایک امید ضرور پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں انہی کی طرح ابھی ان گنت سماجی کارکنان اور طالب علم جیلوں میں بند ہیں۔ ملک کے آئین پر اعتماد رکھنے والے ان سماجی کارکنان کو امید ہے کہ ایک نہ ایک دن جھوٹ، فریب اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہوگا۔ انصاف کا پرچم بلند ہوگا۔ نعرہ لگاتے ہوئے جیل کے اندر جانے اور نعرہ لگاتے ہوئے ہی جیل سے باہر آنے والے ان طالب علموں نے باقی ’سیاسی قیدیوں‘ کو حوصلہ بخشا ہے، جنھیں شاید انتقامی جذبے کے تحت قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے۔
جیل سے باہر آنے کے بعد آصف اقبال، نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا نے کہا بھی ہے کہ ہمارا احتجاج جمہوری تھا اور دہلی ہائی کورٹ نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ پولیس کی تمام کوششوں اور رخنہ اندازی کے باوجود ان طالب علموں کی رہائی عمل میں آئی۔
اس ضمن میں سب سے قابل غور پہلو دہلی ہائی کورٹ کے وہ تبصرے ہیں جو اس نے ان لوگوں کو ضمانت دیتے وقت کئے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے دل و دماغ میں اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے صدائے احتجاج کے بنیادی حقوق اور دہشت گردی کے درمیان پائی جانے والی لکیر موہوم ہوتی جارہی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یقینی طور پر یہ جمہوریت کیلئے انتہائی افسوسناک ہوگا۔‘‘
ہائی کورٹ کے ججوں نے اس موقع پر جسٹس ایم ہدایت اللہ کا حوالہ بھی دیا۔ جنہوں نے رام منوہر لوہیا بنام ریاست بہار کے معاملے میں کہا تھا کہ ’کسی بھی قانون کی خلاف ورزی ہمیشہ احکامات کو متاثر کرتی ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ عوامی نظم و نسق کو متاثر کرے۔‘ ان طالب علموں کو انسداد دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ جو آج کل حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کا سب سے آسان ہتھیار بن گیا ہے۔
پولیس کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے اندھاندھند طریقے پر اطلاق سے گریز کرنا چاہئے
عدالت کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردی سے متعلق اس قانون کو ’ملک کے دفاع‘ کو خطرے میں ڈالنے والے معاملات سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا تھا، اس سے زیادہ یا کم کچھ نہیں۔ دہشت گردی کو دیگر اقسام کے جرائم سے الگ کرنا ہوگا۔ خواہ وہ نوعیت کے اعتبار سے کتنا ہی سنگین اور خطرناک کیوں نہ ہو۔ دفعہ ۱۵؍ کے تحت ’دہشت گردی سے متعلق قانون کی تشریح‘ بہت زیادہ وسیع لیکن بڑی حد تک مبہم ہے۔ پولیس کو ان دفعات کے اندھاندھند طریقے پر اطلاق سے گریز کرنا چاہئے۔ اس قانون کا اطلاق ان جرائم پر بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا جو انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دیگر دفعات کے تحت آتے ہیں۔ اس بات پر ہمارا یقین ہے کہ ہمارے ملک کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کے احتجاج اور مظاہروں سے متاثر نہیں ہوں گی۔
عدالت کا اگلا قدم اُن افسران کو سزا دینا ہونا چاہئے
عرضی گزار نے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو، کم از کم پہلی نظر میں حکومت ہمیں یہ سمجھانے میں ناکام رہی ہے کہ ملزم کے خلاف عائد کئے گئے الزامات میں یو اے پی اے کے سیکشن ۱۵، ۱۷؍ یا ۱۸؍ کے تحت جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔ ‘نہ صرف عدالت نے سخت تبصرے کئے، بلکہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا کہ ’اگر آصف اقبال ،نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ ضمانت دیئے جانے کے بعد پولیس اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی ہے اور ان احکامات پر عمل نہیں کرتی ہے تو عدالت کا اگلا قدم اُن افسران کو سزا دینا ہونا چاہئے جو دہشت گردی کے نام پر عام لوگوں اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں اس کام کی سزا دیتے ہیں جو وہ کبھی کئے ہی نہیں رہتے۔ اس کے بعد ہی پولیس ان کاموں سے بچنے کی کوشش کریںگے جو اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے انجام دیتے ہیں۔‘
اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کس منشا کے تحت کام کر رہی ہے۔ عدالت نے یقیناً ملک کے ہر ذی ہوش اور انصاف پسند شہری کے دل کی بات کی ہے۔ ملک میں احتجاج اور مظاہروں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مظاہرین کو ’دیش دروہی‘ یا ملک کا غدار ٹھہرا دیا جائے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد تو جیسے ملک کی سمت ہی بدل دی گئی ہے۔
دہلی فسادات کے سلسلہ میں پہلے بھی بہت سارے سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ ان فسادات کے بعد کتنی آسانی سے مظلومین کو ظالم اور ظالموں کو مظلوم بنا دیا گیا۔ یعنی جن کا جانی و مالی نقصان ہوا، انہی کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور جو کھلے عام آگ لگانے کی بات کر رہے تھے، وہ کھلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔
کسی کو اتنا نہ ڈراؤ کہ اس کے دل سے ڈر ہی نکل جائے
غور طلب ہے کہ فروری ۲۰۲۰ء میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلہ میں دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف اقبال کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔دیوانگنا اور نتاشا ’پنجرا توڑ‘ کی کارکن ہیں، جبکہ آصف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم ہیں۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ اس سب کے باوجود مظلومین کے حوصوں کو توڑا نہیں جا سکا۔ انہیں خوفزدہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی وہ انقلابی نعروں کے ساتھ سینہ سپر نظر آ رہے ہیں۔ ہم سب نے اکثر یہ قول سنا ہوگا کہ ’کسی کو اتنا نہ ڈراؤ کہ اس کے دل سے ڈر ہی نکل جائے‘۔ اب یہ قول سچ ثابت ہو رہا ہے۔
نتاشا، دیوانگنا اور آصف جس انداز میں جیل سے باہر آئے، اس سے محسوس ہوا کہ جب تک انصاف باقی ہے، حکمران کسی کو خوفزدہ نہیں کر سکتے۔ ان لوگوں نے اس کا احساس جیل سے باہر آنے کے بعد کروایا ہے۔ جیل کے دروازے پر ہاتھ اٹھا کر بند مٹھی کے ساتھ نعرے لگاتے ان طالب علموں کے حوصلوں نے نہ صرف انصاف کی امیدوں کو باقی رکھا ہے، بلکہ اپنے جمہوری حقوق اور اختیارات کے استعمال کے لئے بھی رغبت دلائی ہے۔ ساتھ ہی حکومت کو بھی واضح پیغام دے دیا ہے کہ یو اے پی اے جیسے قوانین کا بیجا استعمال ان کے حوصلوں کو نہیں توڑ سکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ انتقامی جذبے سے کام کرنے سے باز آئے اور عدالت کے ذریعہ کئے تبصروں پر غور و خوض کرے۔ یہ ملک اور آئین دونوں کے حق میں بہتر ہوگا۔
[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں | ای میل: yameen@inquilab.com]