منہاج انٹرفیتھ اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن نے "کووڈ ٹیکہ کاری کی اہمیت” کے عنوان پر ویبینار میں معروف مسلم اسکالرز، ڈاکٹرز، دانشوران علماء و مشائخ عظام نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا
منہاج انٹرفیتھ اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن (MIWF) نے "کووڈ ٹیکہ کاری کی اہمیت” کے عنوان پر گزشتہ 13 جون بروز اتوار ایک ویبنار کا اہتمام کیا۔ ویبینار میں معروف مسلم اسکالرز، ڈاکٹروں اور دانشوروں کے ساتھ ساتھ علماء کرام و مشائخ عظام نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس ویبینار میں شریک تمام علماء و دانشوروں نے ہندوستان کے سبھی شہریوں خصوصا مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ٹیکہ پر شبہات کے ازالہ میں اپنا اہم رول ادا کریں اور ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے میں اپنا بھرپور تعاون پیش کریں۔
ویبینار کا آغاز منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے شعبہ مواصلات کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے اس کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے کیا اور یکے بعد دیگرے شرکاء کا تعارف کرایا۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے اپنے افتتاحی بیان میں کہا کہ کورونا وائرس وبا کو ختم کرنے کے لئے ٹیکہ کاری ہی ایک اہم ذریعہ ہے۔ انہوں نے کووڈ ٹیکہ کاری کے حوالے سے اس آن لائن اجلاس کو علماء و مشائخ پر مشتمل اب تک کا واحد اجلاس قرار دیا۔
شرکاء میں سب سے پہلے نئی دہلی کے معروف ڈاکٹر اور کووڈ میں مبتلا مریضوں کے علاج میں مختلف سرکاری مراکز سے منسلک ڈاکٹر اجے کمار سنگھ نے کہا کہ "ویکسینیشن کے مؤثر ڈرائیوز ہمارے وقت کی اشد ضرورت ہیں اور ہمیں یہ یقینی بنانا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو وائرسوں کی نئی شکلوں کو ابھرنے سے روکنے کے لئے ویکسین لگانی پڑے۔”
انہوں نے بتایا کہ ویکسی نیشن مہم کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ "پہلی لہر کے مقابلہ میں وبائی امراض کی دوسری لہر میں صحت سے متعلق کارکنوں اور بوڑھے لوگوں میں اموات کی تعداد کم ہے کیونکہ ان دونوں اقسام کے لوگوں کو پہلی لہر کے بعد ویکسین دی جا چکی تھی، جس کہ وجہ سے وائرس سے بچاؤ میں بزرگوں کو مدد ملی۔ ”
ہمس لائیو پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور نصیریہ فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر جلس اختر نصیری نے کہا کہ "کسی بھی پروڈکٹ یا پروسیجر پر سوالات عموما تین طرح کے ہوتے ہیں: اول تو محققین اور ریسچرز کے ذریعہ اٹھایا گیا سوال جو آگے چل کر ایک تحقیقی سوال (research question) بن جاتا ہے اور مذکورہ پروڈکٹ پر مزید تحقیق ممکن ہوپاتی ہے۔ دوسرے قسم کا سوال کسی بھی کنزیومر کا بحیثیت صارف سوال کرنا ہے جس کا مقصد پروڈکٹ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی پروڈکٹ پر مزید معلومات کے لئے کنزیومر کا ایسا کوئی بھی سوال فطری ہے جو کنزیومرکا حق ہے۔ لیکن تیسرے قسم کا سوال جو محض سوال برائے سوال ہوتا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے۔ یہ سوال کم اور شبہ زیادہ ہوتا ہے جو افواہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایسے شبہات یا تو کمپیٹیٹرز کے ذریعہ پیدا کئے جاتے ہیں یا لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کے شکار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکوں پر اس طرح کے شبہات کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی پولیو کے ٹیکہ پر اس طرح کے شبہات کئے جاچکے ہیں جو غلط ثابت ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر نصیری نے کہا کہ "ویکسین مکمل تحقیق کے بعد شروع کی گئی ہے اور ٹرائل کے تینوں مراحل سے گزر چکی ہے۔ ہر مرحلہ کی تحیقیق کے بعد مختلف ایجنسیوں سے منظوری لی جاتی ہے جو تحقیقی کا اہم حصہ ہوتی ہے۔ منظوری دینے والی یہ ساری ایجنسیاں آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں اور ان پر کسی حکومت کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہوتا۔ تمام معیارات کے مطابق یہ ویکسین کامیاب ثابت ہوئی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ پہلے ہی مرحلہ کے تجربہ میں طے ہوجاتا ہے کہ دوا یا ٹیکہ سے جان کا خطرہ نہیں ہے۔ حفاظت (safety) یقینی ہونے کے بعد ہی دوسرے اور تیسرے مرحلہ کے تجربہ میں حفاظت کے ساتھ ساتھ تاثیر (efficacy) پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ تیسرے مرحلہ کا تجربہ جن رضاکاروں پر کیا جاتا ہے ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ کسی بھی دوا یا ٹیکہ میں اتنی باریکیوں پر بحث کی جاتی ہے کہ جس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ خوراک کی مقدار اور اس کے فاصلے کے ساتھ ساتھ سبھی خطرات، فوائد، ضمنی اثرات طے ہوتے ہیں۔ کویشیلڈ سے خون جمنے کا سائڈ ایفیکٹ ایک ملین لوگوں میں صرف 0.6 فی صد میں پایا گیا جو تقریبا نہیں کے برابر تھا۔ انہوں نے کہا کہ "عوامی طور پر جو بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ویکسین لینی چاہیے یا نہیں یہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ میری رائے میں ویکسین لینی چاہیے یہ بہت محفوظ ہے۔”
سید تنویر ہاشمی صاحب نے کہا کہ "اس وقت ویکسی نیشن کو لے کر بڑے پیمانے پر افواہوں کا بازار گرم ہے۔ بدقسمتی سے افواہوں کا بازار مسلمانوں کے درمیان گرم ہے۔ مسلمانوں میں طرح طرح کے سوالات و اعتراضات اور ایسی بے تکی باتیں پائی جاتیں ہیں جن کا حقیقت و صداقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہندوستان میں 95 فیصد مسلمان ویکسی نیشن سے دور ہیں۔ اور اس کی وجہ افواہ بازاری، جھوٹی باتیں خصوصی طور پر واٹس اپ کے ذریعہ جو جھوٹی باتیں پھیلائیں جارہی ہیں، ان افواہوں پر ہم لوگوں نے یقین کرلیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ویکسی نیشن کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایک بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بریلی شریف، کچھوچھہ شریف، دارالعلوم دیوبند و ندوۃ العلماء اور جمیعت علما ہند بھی سامنے آئے اور مبارک پور اشرفیہ بھی آگے آئے، باضابطہ طور پر یہ سارے بڑے بڑے ادارے اور تنظیمیں مل کر ملک کے مسلمانوں سے ویکسی نیشن کے لیے اپیل کریں اور افواہوں پر توجہ نہ دیں۔ یہ بیداری لانا ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔
پیر سید تنویر ہاشمی نے بیان کیا کہ "یہ بہت اہم ہے کہ تمام مکاتب فکر کے مسلم اسکالرز کو سامنے آنا چاہئے اور ویکسینیشن ڈرائیو کی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اگر مسلمان ویکسی نیشن مہم میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور ویکسین نہیں لیتے ہیں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تیسری لہر کے لئے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ ”
مولانا پروفیسرڈاکٹر سید علیم اشرف جایسی، صدر شعبہ عربی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسیٹی، حیدرآباد نے اپنے مبسوط بیان میں کہا کہ "ہماری شریعت کی بنیاد جن پانچ امور پر ہے انہیں ہم مقاصد شرعیہ اسلامیہ کہتے ہیں اور وہ پانچ امور ہیں جان کی حفاظت، عقیدے کی حفاظت، عقل کی حفاظت، نسب کی حفاظت اور مال کی حفاطت۔ شریعت اسلامیہ کے ان پانچوں مقاصد شرعیہ میں سے اعلیٰ اور بلند مقام پر جان کی حفاظت ہے جسے حفظ النفس کہا گیا ہے۔ اس حفظ النفس کو شریعت نے واجب قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ لاتقتلوا انفسکم (اپنی جانوں کو قتل نہ کرو)۔
سید علیم اشرف جائسی نے کہا کہ ویکسی نیشن واجب شرعی ہے اور اصحاب حل و عقد پر واجب ہے کہ وہ عوام کا ویکسی نیشن کرائیں اور عوام پر واجب ہے کہ وہ ویکسین لیں۔ اس سلسلے میں کسی کو نام نہاد تقویٰ برتنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کیوں کہ یہ وائرس مرض ہے ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ اگر آپ ویکسین نہیں لیتے ہیں کسی پرہیزگاری اور تقویٰ کے نام پر تو آپ دوسروں کے لیے خطرہ ہیں۔ لہذا کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ ویکسین نہ لیں۔
انہوں نے کہا کہ جو حاکم شرع وہ لوگوں کو ویکسین لینے کے لیے مجبور کریں۔ اسلامی نقطہ نظر سے اولا تو یہ طے نہیں ہے کہ اس ویکسین میں کوئی حرام چیز ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ویکسی نیشن میں شریعت کے قواعد کے مطابق ضرورت کا تحقق ہے۔ لہذا ویکسی نیشن ضرورت شرعیہ ہے۔ شریعت کے قاعدے کے مطابق یہاں پر ضرورت کا تحقق ہے۔ ویکسین کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس لیے یہ ضرورت شرعیہ بن گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کورونا سے بچنے کے لیے ایک ہی علاج ہے اور وہ ویکسی نیشن ہے۔ اس سے شفا (اگر یقینی نہیں بھی ہے تو کم از کم) غالب ظن ہے۔ اسلامی قاعدے کے مطابق حرام چیزوں کے اجزا سے بنی ہوئی چیزیں بھی حلال ہوجاتی ہیں جب اس کی ضرورت ہو، اس کا کوئی متبادل نہ موجود نہ ہو اور اس سے شفا کا غالب گمان ہو۔ یہاں ان ساری باتوں کا تحقق ہے۔ لہذا ویکسی نیشن واجب شرعی ہے۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے۔ عالم اسلام کے بہت سارے دارالافتاؤں نے اس کو واجب شرعی قرار دیا ہے۔ ہمیں عالم اسلام کے افواہ زدہ اذہان کو بتانا چاہیے کہ ویکسی نیشن آپ کے اختیار کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ شریعت کے وجوب کا مسئلہ ہے۔
مولانا جایسی نے مزید کہا کہ "غلط معلومات درخت کی مانند ہیں اور اس کی زرخیز زمین ایک جاہل ذہن ہے۔ علما کو آگے آنا چاہئے اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اس مہم کی رہنمائی کرنا چاہئے۔ ویکسین میں غیر قانونی اجزاء کے استعمال سے ہمیں ویکسین لینے سے نہیں روکا جانا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس ویکسین میں غیر قانونی اجزا موجود ہیں۔ جان بچانے کی ضرورت سے شرعی حکم تبدیل ہوجاتا ہے چاہے وہ غیر قانونی ہوں۔ اس ویکسین کو ناجائز استعمال کا حکم دینے کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اس بیماری سے جان بچانے کے لئے ویکسینیشن ہی واحد آپشن ہے کیونکہ اس بیماری کا کوئی یقینی علاج موجود نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا کہ "پولیو ویکسین مہم شروع ہونے پر مسلمانوں نے ویکسین نہ لینے کی بھی ایسی ہی غلطی کی تھی جس سے ہمارے طبقہ کو بری طرح نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمیں ویکسین لینے کی طرف لوگوں کے تاثرات کو تبدیل کرنے کے لئے ایسی آگاہی مہموں کی ضرورت ہے۔ ”
ترکی سے کانفرنس کے لئے خصوصی ویڈیو پیغام بھیجنے والے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ "کووڈ سے بچاؤ کے ٹیکہ پر اعتراضات کی کوئی سائنسی، مذہبی اور منطقی بنیاد نہیں ہے۔ منہاج انٹرفیتھ اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ ویکسینیشن ڈرائیوز پر غلط فہمیوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ایک بہت ہی بروقت اقدام ہے جس سے غلط معلومات کے خاتمے میں مدد ملے گی۔”
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے ایم پی ایل بی) کے رکن مولانا اطہر علی نے کہا کہ "کووڈ وبائی مرض اور ویکسی نیشن مہم کے بارے میں صرف مسلمانوں میں ہی نہیں تمام مذاہب کے لوگوں میں بہت سی غلط فہمی پائی جارہی ہے۔ انفیکشن کے معاملات کم ہیں اور ان کو جاہل لوگوں نے تناسب سے بڑھا دیا ہے۔ "غیر سرکاری تنظیموں ، اسکالرز، دانشوروں اور ڈاکٹروں کو غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے آگاہی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ویکسینیشن اس وبائی بیماری سے آگے بڑھنے اور تیسری لہر کی روک تھام کا واحد راستہ ہے۔”
ایسوسی ایٹ امیونولوجی ڈویژن برائے کیمبرج کے محقق ڈاکٹر محمد ممتاز نیر نے کہا کہ "ویکسین لانچ ایک سائنسی عمل سے گزرا ہے۔ اس ویکسین کو اتنے مختصر عرصے میں لانچ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پہلی لہر کا اثر بہت زیادہ تھا۔ اور سائنس دانوں کی ٹیم سارسSARS وائرس سے متعلق ماضی کی تحقیق کی بنیاد پر اس پر کام کرنے میں کامیاب ہوگئی۔”
ڈاکٹر نیر نے کہا کہ "سائنس سے تعلق رکھنے والے ترکی کے ایک مسلمان ڈاکٹر ڈاکٹر یوگور ساہین کی سربراہی میں سائنس دانوں کی بائن ٹیک ٹیم جو فی الحال جرمنی میں ہے فائزر کے ساتھ مل کر ویکسین تیار کرنے کی شروعات کی تھی اور اس میں آر این اے کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ویکسین بہت موثر ثابت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ویکسین انفیکشن کے لئے مدافعتی نظام تیار کرتی ہے۔ عام افراد کے ویکسین لانچ کرنے سے پہلے کلینیکل ٹرائلز پر پوری طرح سے عمل ہوتا ہے۔ ویکسین کے بارے میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور لوگوں کو اسے کسی بھی تحفظات کے بغیر لینا چاہئے۔” انہوں نے ٹیکہ کاری کے لیے مساجد کے اماموں کو کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا سیف الدین اصدق، بانی تحریک پیغام اسلام (جمشید پور) نے کہا کہ "اس کے لئے اہم بات ہے کہ اسکالرز اور سماجی کارکنان کووڈ وبائی مرض کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ ہم نے مساجد اور مدارس کو کووڈ آیسولیشن سینٹر کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے اور مفت ویکسین بھی شروع کی ہے۔ ان اداروں میں اب ہمیں چیلنج درپیش ہے کیوں کہ بہت ساری غلط فہمیوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے جو بہت سے لوگوں کو ویکسین نہ لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔” انہوں نے وبائی امراض اور ویکسین سے متعلق خرافات اور شکوک و شبہات دور کرنے کی بھی ضرورت پر زور دیا۔
درگاہ اجمیر شریف کے گدی نشیں اور چشتی فاؤنڈیشن کے چیئرمیں حاجی سید سلمان چشتی نے اپنے بیان میں کہا کہ "عالمی وبا کورونا وائرس سے بچنے کا اس وقت واحد ذریعہ ویکسی نیشن ہے۔ لہذا لوگوں کو افواہوں پر دھیان نہ دے کر ویکسین ضرور لینا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ویکسی نیشن کا اہتمام درگاہوں پر کرنے سے زیادہ سے زیادہ لوگ آسانی کے ساتھ ویکسین لے لیں گے۔ کیوں کہ درگاہوں پر ہر کمیونٹی کےلوگ آتے ہیں وہاں اگر اس کا سلسلہ شروع کیا جائے تو لوگ روحانی طور پر بھی متاثر ہوکر ویکسین لگا لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ بیماری اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا علاج بھی اللہ کی طرف سے ہے اور ویکسین ہمارے امیون کو بڑھانے میں معاون ہوتی ہے۔ ہم نے اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے آس پاس کیمپ شروع کیا ہے۔ جو بھی ویکسین لیتا ہے اس میں کوئی منفی اثر نہیں پڑا بلکہ اس کا اچھا اثر پڑا اور بہت سارے لوگ اس مہم کے لئے آگے بڑھے۔”
امیر شریعت (اتراکھنڈ) مفتی زاہد رضا رضوی نے کہا کہ "میں منہاج فاؤنڈیشن کو اس منفرد پروگرام کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دوسری لہر میں بہت سارے مشہور مسلمان اسکالرز، مشائخ، اور دانشوروں کی اموات ہوئی ہیں جس سے قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ قرآن انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ایسے حالات سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں رہنمائی کی ہے۔ غلط فہمیاں بہت سارے لوگوں کو ویکسین لینے سے روک رہی ہیں جیساکہ ماضی کی وبا میں ہوا ہے۔ اس طرح کی بیداری مہم سے غلط فہمیوں کے ازالہ میں مدد ملے گی۔ ”
پریگ راج (الہ آباد) کے جامعہ عارفیہ سے وابستہ مولانا ڈاکٹر ذیشان مصباحی نے اپنے بیان میں کہا کہ "ویکسی نیشن کا موضوع میڈیکل سائنس سے متعلق ہے مذہب سے نہیں۔ بہت سارے لوگوں نے ہم سے اس کے شرعی حکم کے بارے میں پوچھا تھا، تو ہمارے (دینی) ادارہ جامعہ عارفیہ نے ایک ویکسین کے بارے میں تحقیق پر مبنی جواز بلکہ ضرورت قرار دیتے ہوئے فتوی جاری کردیا ہے۔ ٹیکے کے بارے میں افواہوں پھیلائی گئی ہیں اور قرآن نے ہمیں کسی بھی افواہ کی تصدیق کرنے کا حکم دیا ہے۔
علامہ مصباحی نے کہا کہ ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس کی تحقیق کرنی چاہئے۔ افواہ کے بارے میں قرآن نے ذکر کیا ہے کہ جو لوگ تحقیق نہیں کرسکتے انہیں اس شعبے کے ماہرین سے پوچھنا چاہئے۔ سائنسدان اور ڈاکٹرز جو طب کے شعبے کے ماہر ہیں اس پر تقریبا متفق رائے ہیں کہ یہ ویکسین وبائی امراض کو پھیلنے سے روکنے میں موثر ہے اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس کی اتباع کریں۔
ٹیکہ کاری سے متعلق ڈاکٹر مصباحی نے ڈاکٹر جلیس نصیری صاحب کی اس بات کی تائید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بہت سے لوگ ویکسین اس لیے نہیں لگوائے ہیں کیوں کہ انہیں اپنے پیر صاحب کی جانب سے اشارہ نہیں ملا، پھر انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی شیخ کا دائرۂ کار روحانی تصرفات میں ہونا چاہئے طبی معاملات میں نہیں۔ حالانکہ مصباحی صاحب نے جلیس نصیری کے انداز بیان کو تلخ بھی بتایا۔
ویبنار کے اختتام میں ڈاکٹر ممتاز نیر نے مولانا مصباحی کی اس بات پر بطور خاص اعتراض جتایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طبی معاملوں میں علماء کا رول نہیں ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر ممتاز نیر نے کہا کہ "لوگ علماء اور کمیونیٹی لیڈرز کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں، وہ اپنے اپنے علاقوں میں ویکسی نیشن مہموں کی رہنمائی کرتے ہیں تو اس عمل کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ "حالانکہ ڈاکٹر نصیری اور مولانا مصباحی دونوں کا مطلب یہ تھا کہ ٹیکہ کے فائدے نقصانات پر علماء و فقہاء کی رائے بے معنی ہے، شرعی جواز اور عدم جواز میں علماء کی رائے بہر حال اہم ہے۔
اخیر میں عالمی مشائخ کونسل کے چیئرمین مولانا سید خالد اشرف اشرفی نے زور دیا کہ تمام مسلمانوں کو اس واقعے کے اختتام پر ویکسین لگانی چاہیئے اور دعا کی۔ مولانا سید خالد اشرف صاحب نے بھی لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ویکسی نیشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے خود ویکسین لینے اور دوسروں کو بھی ویکسین لگوانے کی تاکید کی اور کہا کہ ـویکسین لے کر خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوط رکھیں۔ـ
رفیق احمد خان صاحب صدر ایم آئی ڈبلیو ایف نے آخر میں ہدیہ تشکر (Vote of Thanks) پیش کرتے ہوئے سبھی شرکا اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس اہم کانفرنس میں شامل ہونے اور معلوماتی گفتگو کے لئے تمام مقررین کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ اس سے ویکسینیشن مہم کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے میں ملے گی۔ انہوں نے ڈاکٹر سے صلاح اور ٹیکہ کاری سے متعلق سوالات کے لئے ایم آئی ڈبلیو ایف کی میڈیکل ہیلپ لائن (1800-258-4777) کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔