پاکستان ٹرین حادثہ: صوبہ سندھ میں دو ٹرینوں کی ٹکر میں، 40 افراد جاں بحق، سو سے زائد زخمی

اطلاعات کے مطابق یہ ٹرین حادثہ رات ساڑھے تین بجے اس وقت پیش آیا جب سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس ٹرین کی 10 سے زائد بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور مخالف سمت سے (لاہور سے کراچی جانے والی) سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔

اسلام آباد: پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ڈہرکی کے قریب میں پیر کے روز دو مسافر ٹرینوں کے ٹکرانے سے کم از کم 40 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد دیگر زخمی ہوگئے۔

اطلاعات کے مطابق یہ حادثہ رات ساڑھے تین بجے اس وقت پیش آیا جب سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس ٹرین کی 10 سے زائد بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور مخالف سمت سے (لاہور سے کراچی جانے والی) سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔

جیو نیوز نے گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر عثمان عبد اللہ کے حوالے سے بتایا کہ اس حادثے میں 13 سے 14 ڈبے پٹری سے اتر گئے اور آٹھ ڈبے بری طرح ٹوٹ گئے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، اس حادثے میں کم از کم 40 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد دیگر مسافرین زخمی ہوگئے۔ بہت سے لوگ اب بھی ٹرین کے ڈبے میں پھنسے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ مسافروں اور ان کے اہل خانہ کی سہولت کے لئے کراچی، سکر، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ہیلپ لائن شروع کردی گئی ہے۔

ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جاگریں

ترجمان پاکستان ریلوے نے تصدیق کی کہ کراچی سے سرگودھا آنے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر کر ڈاؤن ٹریک پر جاگریں اور راولپنڈی سے آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ریلوے کے مطابق ملت ایکسپریس ٹرین رات 3 بجکر 28 منٹ پر ڈہرکی اسٹیشن سے روانہ ہوئی تھی اور 3 بجکر 43 منٹ پر اطلاع ملی کہ ٹرین 3 بجکر 38 منٹ پر پٹری سے اتر گئی‘۔

محکمہ ریلوے کی پریس ریلیز کے مطابق اسی اثنا میں سر سید ایکسپریس ٹرین 3 بجکر 38 منٹ پر رائٹی سے گزری۔ انہوں نے کہا کہ ڈاؤن ٹریک پر موجود بوگیوں کو دیکھ کر ڈرائیور نے ایمرجنسی بریک لگانے کی کوشش کی لیکن 3 بجکر 38 منٹ پر سرسید ایکسپریس ٹرین بوگیوں سے ٹکرا گئی۔ علاوہ ازیں ترجمان پاکستان ریلوے نے بتایا کہ روہڑی سے ریلیف ٹرین جائے حادثہ کی طرف روانہ کردی گئی ہے، اس کے علاوہ ریلوے انتظامیہ اور مقامی پولیس سمیت ضلعی انتظامیہ ریلیف کے لیے موقع پر موجود ہے۔

قبل ازیں گھوٹکی کے ڈپٹی کمشنر عثمان عبد اللہ نے واقعے میں 30 افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔ علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ حکام کو شہریوں کو بچانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بوگیاں الٹ گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ ایک بوگی میں 30 سے 35 مسافر پھنسے ہوئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر عثمان عبداللہ نے بتایا کہ معلومات کی بروقت فراہمی کے لیے انفارمیشن ڈیسک قائم کردی گئی ہے جبکہ ریلیف کیمپ لگادیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل کام ہے، اب بھی پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالنے کے لیے بھاری مشینری کا استعمال کرنے میں وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر طبی عملے بشمول تمام ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو طلب کرلیا گیا ہے۔

ایس ایس پی گھوٹکی عمر طفیل نے بتایا کہ واقعے میں معمولی زخمی ہونے والے افراد کو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے روانہ کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک بوگی میں اب بھی مسافر پھنسے ہوئے ہیں اور ہمیں ہلاکتیں بڑھنے کا خدشہ ہے‘۔

بوگیوں میں پھنسے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا کام جاری

علاوہ ازیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ریلوے سکھر طارق لطیف کے مطابق حادثے میں 13 سے زائد بوگیوں کو نقصان پہنچا، جن میں 9 بوگیاں ملت ایکسپریس اور 4 بوگیاں سرسید ایکسپریس کی شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گری ہوئی بوگیوں میں پھنسے زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کا کام جاری ہے جبکہ روہڑی سے ریلیف ٹرین بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئی ہے۔

زخمیوں سے متعلق ترجمان پاکستان ریلوے نے بتایا کہ زخمیوں کو تعلقہ ہسپتال روہڑی، پنوعاقل اور سول ہسپتال سکھر منتقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سرسید ایکسپریس کی باقی بوگیوں کو مسافروں کے ساتھ صادق آباد ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹریک بحال ہوتے ہی ٹرینوں کو منزل مقصود کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔

پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو افسر نثار میمن نے کہا سانحہ کی تحقیقات سے حادثے کی وجوہات کا تعین ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سکھر ڈویژن میں ریلوے کی پٹری کمزور ہیں۔
نثار میمن نے مزید کہا کہ پاکستان ریلوے نے مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اسے مقامات پر رفتار کی حد مقرر کی ہے۔

انہوں نے ڈان کو فون پر بتایا کہ ’جہاں حادثہ پیش آیا ہے وہاں ٹریک کا ٹریک کمزور نہیں ہے‘۔
چیف ایگزیکٹو افسر نے کہا کہ جب رفتار سے متعلق پابندیاں ہوتی ہیں تو ٹرین ڈرائیور 40 کلومیٹر فی گھنٹہ، 60 کلومیٹر فی گھنٹہ اور 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار برقرار رکھتا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ شام کے 6 بجے تک ایک پٹری آمد و رفت کے لیے کھول دی جائے گی کیونکہ امدادی کام تاحال جاری ہیں۔

ترجمان پاکستان ریلوے کے مطابق گھوٹکی حادثے پر وفاقی وزیر ریلوے محمد اعظم خان سواتی نے نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پر مشتمل انکوائری 24 گھنٹے کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر گھوٹکی عثمان عبداللہ نے امدادی سرگرمیوں سے متعلق بتایا کہ ریسکیو آپریشن آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور دیگر بوگیوں سے ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کٹرز کی مدد سے بوگیوں کو کاٹ کر زخمیوں اور نعشوں کو نکالا جا رہا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اس حادثے میں لوگوں کی ہلاکت پر تعزیت کی ہے اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ مسٹر عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ ”گھوٹکی میں آج صبح ہونے والے خوفناک ٹرین حادثے سے حیران اور رنجیدہ ہوں جس میں 40 مسافروں کی موت ہوگئی ہے۔  وزیر ریلوے سے کہا گیا ہے کہ وہ جائے وقوع پر پہنچیں اور زخمیوں کے لئے طبی امداد کو یقینی بنائیں اور جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو امداد فراہم کریں۔ ریلوے سیکیورٹی میں گڑبڑی کی جامع تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔