پچھلا رمضان بھی مختلف بندشوں کے درمیان گزرا او پھر عید کی رونقیں گھروں کی چہار دیواری تک محدود رہیں، امسال بھی تقریباً وہی صورت حال ہے
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
ویسے تو پورے سال ہی عالم اسلام میں عباد ت وریاضت کا سلسلہ جاری رہتا ہےاور مساجد و اسلامی مراکز اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کی حمد و ثنا کرنے والوں سے آباد رہتے ہیں، لیکن رمضان کا مقدس مہینہ آتے ہی پوری اسلامی دُنیا میں جیسے رنگ و نُور کی ایک بہار سی آ جاتی ہے ۔ نہ صرف اسلامی ممالک بلکہ دُنیا کے ہر اُس خطّے میں، جہاں بھی مسلمان آباد ہیں، رُوح پرور اجتماعات اور خصوصی عبادت و ریاضت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ماہِ مقدس کے دوران مساجد کی رونقیں دو بالا ہو جاتی ہیں۔ گھروں کے ساتھ ساتھ مساجد میں بھی رات دیر تک بچّوں، جوانوں اور بزرگوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ سحری وافطار کا سماں تو ایسا قابلِ دید ہوتا ہے کہ سال بھر اس کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو عید الفطر کی شکل میں ایک ایسا تحفہ پیش کرتا ہے کہ جس کا بدل دنیا میں نہیں۔
عید الفطر کی خوشیاں اور رونقیں رمضان المبارک کی سعادتیں حاصل کرنے والے اللہ کے بندوں کے سوا بھلا کون محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن پچھلے سال آئی کورونا کی وبا سے نہ صرف رمضان اور عید کی رونقیں غائب ہو گئی ہیں، بلکہ پوری دنیا کا نظام زندگی ہی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ سال بھی ماہ مقدس لاک ڈاؤن اور مختلف بندشوں کے درمیان گزرا او پھر عید کی رونقیں بھی گھروں کی چہار دیواری کے اندر ہی محدود ہو کر رہ گئیں، امسال بھی تقریباً وہی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔
رمضان المبارک بھی کرورونا وائرس کے خطرے اور پابندیوں کے درمیان گزرا اور اب عید پر بھی کورونا کا مہیب سایہ منڈلا رہا ہے۔ خاص طور پر وطن عزیز ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر کی ہلاکت خیزی نے ہر خاص عام کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ملک میں ہر روز لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس مہلک وبا کا شکار ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اس جہان فانی کو الوداع کہہ رہے ہیں۔
دنیا کی ہر قوم سال میں کچھ ایام خوشی و مسرت کیلئے مختص کرتی ہے اور انسان کی طبیعت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ آج کی اس تیز رفتار زندگی میںاپنے روز مرہ کے معمولات سے ہٹ کر ذہن و دل کو تمام فکر مندیوں سے خالی کرکے کچھ لمحے ہنسی خوشی کے ساتھ گزارے اور یادگار کے طور پر عید یا دیگر تہوار منائے۔ عید کے معنی لوٹنے اور واپس ہونے کے ہیں۔ یعنی ایسا خوشی کا دن جو بار بار لوٹ کر آئے اور فطر کے معنی روزہ ختم کرنے کے ہیں۔ یعنی عیدالفطر کے دن رمضان کے روزوں کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو روزہ اور عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتا ہے، اس لئے اس دن کو ’عیدالفطر‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ لیکن کورونا کی وبا کے سبب گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی رمضان المبارک ایسا گزرا ہے کہ ماہ صیام کی روایتی رونقیں پھینکی رہیں۔
ماہ مقدس میں ایک ماہ تک سختی کے ساتھ عبادت و ریاضت کا اہتمام کیا گیا۔ کچھ مقامات پر مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود رہی، تو کچھ جگہوں پر مساجد نمازیوں سے خالی رہیں۔ اسی درمیان ماہ مبارک کی خوبصورت ساعتیں آئیں اور چلی گئیں۔ شبِ قدر کے لمحات بھی ہوا کے تیز جھونکوں کی طرح رُخصت ہوگئے۔ اب نہ افطار کی خوشگوار محفلیں ہوں گی نہ سحری کی رونقیں۔
لاک ڈاؤن کے سبب مسجدیں خالی خالی رہیں۔ نماز، تلاوتِ کلام پاک کی دلکش آوازیں گھر میں ہوتی رہیں۔ اب عیدالفطر اس انداز سے آئی ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دینا کے بہت سے مسلم ملکوںمیں عید کی نماز کے اجتماعات تک ممکن نہیں ہیں۔ کیوں کہ کورونا وائرس کے خوں آشام پنجوں نے دنیا کو یسا جکڑا ہے کہ وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ انگنت انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی مہلک وبا سے بنی نوع انسان کو لاحق خطرات کے پیش نظر حکومتوں اور انتظامیہ نے جہاں مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ عید الفطر کی خوشیاں اپنے گھروں پہ رہ کر منائیں تو وہیں متعدد و مذہبی رہنماؤں نے بھی ہدایت کی ہے کہ عیدالفطر کی خوشیاں مناتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کی تمام احتیاطی تدابیر پر لازمی عمل درآمد کریں۔آج بہت سے لوگ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اس بار عید بے رونق ہو گئی، عید کا رنگ پھیکا ہو گیا، جبکہ اسلامی تعلیمات کی روسے دیکھیں تو یہ عید عیدِ بندگی ہے۔
بھلا یہ کیسے پھینکی ہو سکتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بندشوں کے سبب ہم ایک دوسرے سے گلے نہیں مل سکتے، لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں نہیں بانٹ سکتے ۔ٹکنالوجی کے اس دور میں بہت سے ایسے وسائل اور ذرائع ہیں، بس ہمیں اپنے اطراف میں نظر ڈال کر یہ دیکھنا ہوگا کہ کون سا ذریعہ استعمال کیا جائے کہ ہم ایک دوسرے کا حال دریافت کر سکیںاور ضرورت مندوں تک ان کی ضرورت کا سامان پہنچا سکیں، صلہ رحم کر سکیں ۔
درپیش حالات کو اگر پیش نظر رکھیں تو ہم جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے پیاروں کو ویڈیو کال کے ذریعے عید کی مبارکباد دے سکتے ہیں، ایک دوسرے کی آرائش و زیبائش کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ علاوہ از ایں عید کے مقصد و ہدف پر نظر ڈالیں اور فلسفہ عید کو سمجھیں تو ہم متوجہ ہوںگے کہ ہرگز یہ عید بھی پھیکی نہیں ہے اور وہ عید کیسے پھینکی ہو سکتی ہے جس میں ہم نے تمام تر وہ اعمال انجام دیئے ہوں، جس کے بارے میں ہم سے شریعت نے کہا ہے۔
ہاں! یہ بات بھی یاد رہے کہ جب عید الفطر کی خوشیاں اپنوں کے درمیان بانٹیں تو ان کو ہرگز نہ بھولیں جو ابھی چند دن قبل تک اپنوں میں تھے ،لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ ان کو بھی نظر انداز نہ کریں کہ جو لاک ڈاؤن اورمعاشی سرگرمیوں کا پہیہ کسی حد تک جام ہونے کی وجہ سے ہمارے اور آپ کے ’منتظر‘ ہیں۔ کورونا کی اس وبا میں ہم ان لوگوں کے کام آسکیں جنہیں ہماری ضرورت ہے، اس سے بڑھ کر ہمارے لئے عید کیا ہوگی۔ ہمارے لئے یہی بڑی عید ہے کہ ہم خلق خدا کے کام آسکیں، کسی کا سہارا بن سکیں، کسی کا ہاتھ تھام سکیں ۔
اگر سال کے بارہ مہینے نمازوں کی رونقیں یوں ہی باقی رہیں، تلاوتِ قرآن پاک کی بلند آوازیں دھیمی نہ ہو اور اسی طرح مسلمان اپنے نفس پر قابو رکھیں اور برائیوں سے بجتے ہوئے نیکیوں کو اپنائیں اوربارگاہ الہی میںاپنا سر تسلیم خم کریں تو ان شاء اللہ مسلمان ہر مقام پر سرخرو اور کامیاب و کامران ہوں گے اور تمام آفات و بلاؤں اور وباؤں سے محفوظ رہیں گے۔
لاک ڈاؤن کے سبب ہم بہت سے حالات سے نبردآزما ہیں۔ جیسے کورونا وائرس کا مہیب سایہ۔ آئیے ، ہم عہد کریں کہ اللہ رب العزت نے جس طرح موجودہ حالات میں ہمیںگھر پر عبادت کرنے کا موقع دیا ، آئندہ ہم کبھی اپنے گھروں کو عبادات سے ویران نہیںہونے دیں گے، لاک ڈاؤن کے تحت جس طرح ہم نے اپنے بھائیوں اور پڑوسیوں کا خیال رکھا ،آگے بھی خیال رکھیں گے۔
جیسے ہی حالات سازگار ہوں گے ہم پہلے کی طرح مسجدوں کو آباد کریں گے، نیز اپنے بچوں کی دینی اور دنیاوی علوم کے حصول کی فکر کریں گے۔ اس ماہ مقدس کے طفیل اگر ہم اللہ کے حضورکورونا کی اس وبا سے حفاظت اور مکمل نجات کے لئے گڑگڑائیں تو ان شاء اللہ ضرور ہماری دعائیں قبول ہوں گی ۔ ہم کوشش کریں کہ اللہ کو راضی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایمان کی پختگی کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اخلاق و اطوار اور اپنے معاملات کو شریعت کے مطابق کر لیں۔ اللہ پر مکمل یقین ہے کہ وہ ہمیں اس آزمائش سے ضرور نکالے گا اور رمضان و عید کی رونقوں سے ہم ایک بار پھرمستفیض ہو سکیں گے۔
نہ گل کھلے ہیں، نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)