امیر شریعت مولانا محمد ولی رحمانی کی نماز جنازہ میں ملک و بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ حکومت کی نمائندگی ضلع مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کی اور سرکاری اعزاز و احترام کے ساتھ سپرد کیا گیا۔ نماز جنازہ میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر شعبہائے حیات کے وابستہ لوگوں نے شرکت کی۔
پٹنہ/مونگیر: مشہور عالم دین، خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں، جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ کے امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی کو سرکاری اعزاز اور لاکھوں سوگوار کی موجودگی میں آج یہاں ان کے والد مولانا سید منت اللہ رحمانی کے پہلو میں سپرد کردیا گیا۔ نماز جنازہ مسلم پرسنل لاء بورڈکے سکریٹری مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے پڑھائی۔
مولانا رحمانی کی جسد خاکی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ پٹنہ سے مونگیر تک لایا گیا۔ کئی اسکوڈ ایمبولینس کے ساتھ چلتی رہی۔ مونگیر میں مونگیر کے ضلع مجسٹریٹ اور ایس پی نے مولانا کی جسد خاکی کو رسیو کیا۔
نماز جنازہ میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر شعبہائے حیات کے وابستہ لوگوں نے شرکت کی
مولانا ولی رحمانی کا کل دوپہر پٹنہ کے ایک نجی اسپتال میں انتقال ہوگیا تھا۔ انہیں سانس کی تکلیف کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور بعد میں ان کی رپورٹ کورونا پوزیٹیو آئی تھی۔ ان کے نماز جنازہ میں ملک و بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ حکومت کی نمائندگی ضلع مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کی اور سرکاری اعزاز و احترام کے ساتھ سپرد کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ میں سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر شعبہائے حیات کے وابستہ لوگوں نے شرکت کی۔ رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا احمد اشفاق کریم، عبدالباری صدیقی، مولانا سید محمد ولی رحمانی کے انتہائی قریبی اور روزنامہ ہمارا سماج کے ایڈیٹر خالد انور رکن قانون ساز کونسل، فراز فاطمی اور دیگر سیاسی لیڈروں نے شرکت کی۔
اس کے علاوہ اہم دیگر شخصیات میں نائب امیر شریعت شمشاد رحمانی، فہد رحمانی فرزند مولانا ولی رحمانی، شبلی القاسمی، مفتی ثناء الہدی قاسمی، نظر توحید رانچی، ڈاکٹر اظہار احمد سابق ایم ایل اے، ڈاکٹر فیاض احمد سابق رکن اسمبلی، قاضی انظار عالم، مفتی وسیع احمد، مولانا خالد غازی پوری دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو، مولانا محمود ندوۃ العماء، مفتی محمود مظاہر العلوم سہارن پور، ممبئی سے حافظ اقبال چونا والا، مولانا مجبتی حسین قاسمی استاذ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ، مولانا قاری محمد شعیب وغیرہم نے شرکت کی۔ نماز جنازہ تا حد نظر سر ہی سر نظر آرہے تھے۔
نماز جنازہ پڑھانے کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے کہا کہ جب میں دس سال کا تھا والد ماجد کا سایہ سرسے اٹھ گیا، پھر حضرت امیر شریعت نے سرپر دست شفقت رکھا اور یتیم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ آج حضرت چلے گئے تو میں پھر سے یتیم ہوگیا، نہ صرف یہ ناکارہ بلکہ پوری ملت اسلامیہ یتیم ہوگئی۔
بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کا تعزیتی پیغام
مولانا رحمانی کے انتقال پر مسٹر کمار نے ہفتہ کے روز یہاں اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے انتقال کی خبر سے بہت دکھی ہوں۔ اس کا نام بہار اور ملک کے مشہور عالم دین میں شامل تھا۔ رحمانی صاحب کے ساتھ ان کا بہت عرصہ سے گہرا تعلق رہا ہے اور بہت سے اہم امور پر ان کے ساتھ بات کرتے تھے۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں بھی تھے۔ وہ رحمانی 30 کے بانی تھے اور بہار قانون ساز کونسل کے ممبر بھی تھے۔ مسٹر کمار نے کہا کہ خدا سے دعا ہے کہ وہ انہیں جنت میں ایک اہم مقام دے اور اس کے ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کے لئے ان کے خاندان کو طاقت دے۔
ہمارا سماج کے ایڈیٹر اور رکن قانون ساز کونسل خالد انور نے مولانا کے انتقال پر انتہائی دکھ و تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے مربی اور رہنما تھے۔ ان کے انتقال سے پورے ملک میں ان جیسا بے باک اور نڈر اور حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والے نہیں ہے۔ انہوں نے مولانا محمد علی مونگیری اور مولانا سید منت اللہ رحمانی کی سچی وراثت نبھائی تھی اور اسی بے باک اور حق گوئی پر عمل پیرا تھے جو ان کے خاندان کی شان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا رحمانی نے عصری علوم اور خاص طور پر روزگار رخی تعلیم کے ذریعہ جہاں ایک طرف مسلمانوں کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دیا وہیں انہوں نے مسلم نوجوانوں کو روزگار سے بھی جوڑ دیا۔ رحمانی 30 کے ذریعہ آج ہزاروں طلبہ پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور باروزگار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مولانا رحمانی کے انتقال سے ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے جس کا پر ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ وہ مسلمانوں کی آواز تھے اور ہر آڑے وقت میں سامنے آکر مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں اور ان کے لئے بہترین خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں اور جو کام وہ کر رہے تھے اسے آگے بڑھائیں۔