آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے جناب اختر الایمان اپنے حلقے کے علاوہ عمومی طور پر بہار میں تعلیم صحت و دیگر ترقیاتی پروگراموں کے حوالے سے مسلسل ایوان میں آواز بلند کر رہے ہیں
کشن گنج: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے ریاستی صدر اور امور اسمبلی حلقہ سے منتخب ایم ایل نے آج اپنے حلقہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن جیتنے کے بعد کسی بھی سیاسی نمائندے کا جو بنیادی کام ہے وہ ہے اسمبلی میں اپنے اس حلقے کے مسائل کو اٹھانا جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے بہار کی اسمبلی میں اقلیتوں، دلتوں اور خصوصی طور پر اسمبلی حلقہ امور بیسا کے مسائل کو کافی مضبوطی کے ساتھ اٹھانے کی بات کہی۔
نامہ نگاروں سے بات چیت کرنے کے بعد انہوں نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے کہا کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے اسکول اور ہاسپیٹل کے کاموں سے متعلق خاص طور پر سوالات کئے گئے اور اس کے نتائج اب سامنے آنے لگے ہیں۔ اسکول کی کئی عمارتیں بند پڑی تھیں انہیں کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایوان میں تعلیمی پالیسی پر بحث کرتے ہوئے تعلیم، اردو اور مدارس سے متعلق مسلسل سوالات کئے گئے ہیں۔
حال ہی میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بہار کے ریاستی صدر اور فلور لیڈر جناب اخترالایمان نے تعلیمی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ایوان میں حکومت بہار کی تعلیم سے متعلق کارکردگی پر کئی اہم سوال اٹھائے، اردو اور مدارس کے حوالے سے سرکاری کی پالیسیوں کو دوہرا رویہ قرار دیا۔
بہار کی تعلیمی پالیسی اور تعلیم کی کٹوتی بجٹ کے تعلق سے عوام کی تکلیف اور بہار میں موجودہ تعلیمی صورت حال پر اپنے خیالات کا اسمبلی میں پرزور اظہار کرتے ہوئے اس پر سوالات اٹھائے گئے۔
ایوان میں حکومت بہار سے سے بہار کے غریبوں، دلتوں، پچھڑے لوگوں کے بچوں کی تعلیم پر کام کرنے میں اپنا دیانت دارانہ رول ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن ساتھ ہی 2014-15 میں بجٹ کا 18.8 فیصد پیسہ دیا گیا تھا اور 2020 میں اس میں ایک فیصد کی کٹوتی پر بھی سوال اٹھایا گیا۔
تعلیم کی صورت حال سے متعلق اسمبلی میں سرکار کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا گیا کہ 2012-13 میں ایک سو چون لاکھ بچوں کا اندراج تھا جبکہ 2018-19 میں گھٹ کر ایک سو اکتالیس لاکھ رہ گیا ہے (یعنی ایک کروڑ اکتالیس لاکھ) بچے رہ گئے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ بچوں کے اندراج میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر سرکار تعلیم پر کام کر رہی ہے تو یہ کمی کیوں کر آئی۔
نئی تعلیمی پالیسی پر بات کرتے ہوئے اسمبلی میں کہا گیا کہ 30 بچوں پر ایک ٹیچر کی بات کہی جا رہی ہے، جبکہ پٹنہ میں 53 بچوں پر، مونگیر میں 51 بچوں پر، پورنیہ یں 75 بچوں پر ایک ٹیچر ہے، اور ہمارے حلقے کے ہفنیہ ہائی اسکول میں 600 بچوں پر صرف دو ٹیچر ہیں۔
ٹیچروں کی کمی سے متعلق ایوان میں اواز بلند کیا گیا اور کہا گیا کہ جو لوگ ٹی ای ٹی کوالیفائی کیے ہیں ان کی بحالی کا راستہ صاف ہونا چاہیے اور جن کی بحالی اب تک نہیں ہوئی ان کو بحال کیا جانا چاہیے۔ تعلیمی مراکز کی مدرسین کو نہ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ ٹریننگ کالجوں میں اردو ٹیچروں کی کمی کی بات کی گئی اور ان کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔
مدرسہ ایجوکیشن اور اقلیت کی تعلیم سے متعلق حکومت کے موقف پر سوال کرتے ہوئے فلور لیڈر نے کہا کہ 2459 کے 814 زمرے کے مدارس جن کی رپورٹ آچکی ان کو بھی آج حکومت منطوری نہیں دی رہی ہے۔
ہائی کورٹ نے مدارس کے مدرسین کے پنشن کی بات کہی ہے اس کے باوجود حکومت پینشن دینے کے لیے تیار نہیں ہے، تو بہار کے تعلیمی نظام کی صورتحال کی کیا بات کریں۔
بہار میں اقلیتوں کے حالت اور اردو کی حالت سب سے خراب ہے۔ اردو بولنے والی آبادی کی حالت سب سے خراب ہے۔ اردو بولنے والی آبادی سے متعلق حکومت کا دوہرا رویہ ۔
2006 میں اسی حکومت نے فارسی کی تعلیم بند کردی اور اب مئی 2020 میں ایک لیٹر جس کا نمبر 779 ہے جاری کرکے اس کے ذریعہ اردو مضمون کو اختیاری مضمون قرار دیا گیا ہے، جس سے اردو کی تعلیم کا راستہ تقریبا مسدود ہو گیا ہے جب کہ اردو دوسری سرکاری زبان ہے اور بہار میں تقریبا دو کروڑ لوگوں کی مادری زبان ہے۔
ایوان میں اردو ذریعہ تعلیم کے حوالے سے کہا گیا کہ آئین ہند کا حوالہ دے کر کہا جا رہا ہے کہ بنیادی تعلیم اردو (مادری زبان) میں دی جائے گی لیکن اردو مشاورتی کمیٹی کی بحالی نہیں ہوئی، اردو لائبریری میں اب تک بحالی نہیں ہوئی۔ مدرسہ شمس الہدی جو ایک قدیم مدرسہ ہے وہاں پر بھی نو مدرسین کی جگہ صرف تین مدرسین ہیں اور جونیئر سیکشن میں بارہ مدرسین کی جگہ محض ایک مدرس بحال ہے۔ اردو تحقیقات عربی و فارسی میں میں اسٹاف ندارد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے حلقے کے ایک مقام ہفنیہ میں 20 برس سے ایک ہسپتال بند پڑا تھا اسے کھولنے کا کام کیا جارہا ہے۔ اسی گاؤں میں ایک ہائی اسکول ہے جس میں محض دو اساتذہ تھے، وہاں ٹیچرز اضافہ کرکے چار کر دئے گئے ہیں۔
روٹا اور امور مارکیٹ کی جو تاریخی تبدیلی ہوئی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے، جس میں ٹوائیلیٹ کا انتظام کرایا گیا ہے۔ ان مارکیٹوں میں بے جا وصولی کی جاتی تھی اسے روکنے کا کام کیا گیا ہے۔ بجلی سے متعلق کام بند پڑے تھے اب ان کاموں کو اس سر نو شروع کیا جا رہا ہے۔ در اصل بنیادی کاموں پر توجہ دی جارہی ہے۔
سیلاب میں جن کی زمینیں کٹ گئیں تھیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، اب ہماری کوشش سے حکومت نے حال ہی میں 30 لوگوں کو معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ سیلاب کے سبھی متاثرین کو معاوضہ ملے۔ کئی مقامات پر اس سلسلے میں ہم انکوائری بھی کروا رہے ہیں۔
بہار قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں ، ایم ایل اے جانب اختر الایمان نے امور اسمبلی سے متعلق مسائل کو خاص طور پر بڑی طاقت کے ساتھ ایوان کے اندر حکومت کے سامنے پیش کیا، جو مندرجہ ذیل ہیں:
1) ڈی بی آر ۔27 آر۔ 250 (رسیلی گھاٹ پول کی تعمیر جس کی ڈی پی آر (ویلیٹڈ پروجیکٹ رپورٹ) بن رہی ہے۔
2) بی آر 128 بی (کھاڑی پل) ڈی پی آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بن رہا ہے۔
3) نجی اراضی پر مٹی کاٹنے پر انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو اس سے متعلق ایم ایل اے صاحب نے ایوان میں یہ معاملہ اٹھایا ہے، لہذا جناب وزیر نے واضح کردیا ہے کہ رعیتی زمین پر مٹی کاٹنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
4) ہفنیہ ہائی اسکول میں پہلے صرف 02 اساتذہ مقرر تھے اب اساتذہ کی تعداد بڑھ کر 04 ہوگئی ہے۔
5) ہفنیہ اسپتال جو پچھلے 20 سالوں سے بند تھا، ایم ایل اے صاحب نے پہلے اسپتال کا تالا کھولا اور ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹروں اور نرسوں نے بھی اپنی خدمت آسانی سے فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔
6) روٹا اور امور میں گرلز ہاسٹل کی تعمیر اب تک زیر التوا تھی۔ جب یہ معاملہ منسٹر کے سامنے ایوان میں پیش کیا گیا تو محترم وزیر نے واضح کردیا ہے کہ دونوں ہاسٹلوں کی تعمیراتی کام مئی 2021 تک مکمل ہوجائے گا۔
7) امور اور بیسا بلاکوں میں، بجلی تاروں اور پولوں کی صورتحال بھی ایوان میں پیش کیا گیا جس کے جواب میں وزیر توانائی نے اپنے جواب میں واضح کیا ہے کہ کام جاری ہے اور باقی کام بھی جلد کیا جائے گا۔
8) ڈاکٹروں کی کمی کے بارے میں بھی ایوان میں ہونے والے سوال کے جواب میں، محترم وزیر نے کہا کہ محکمہ نے ڈاکٹروں کی تقرری کے سلسلے میں ریاستی ٹیکنیکل کمیشن کو ایک خط لکھا ہے، ڈاکٹروں کو بہت جلد بحال کردیا جائے گا۔
9) پورے بہار میں محصولاتی عملے کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جب یہ معاملہ معزز ایم ایل اے نے قانون ساز اسمبلی میں اٹھایا تو وزیر نے اس سوال کی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے اپنے جواب میں کہا کہ محصولات کے عملے کو جلد بحال کردیا جائے گا۔