ہندو مسلم اتحاد کا پیغام دینے والے صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہ کی درگاہ پر کھیلی جانے والی ہولی میں مذہب کی حدیں ٹوٹتی نظر آتی ہیں۔ یہاں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ہولی کھیل کر ایک دوسرے کے گلے مل کر ہولی کی مبارکباد دیتے ہیں۔
بارہ بنکی: ہندو مسلم اتحاد کی مثال اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے متصل ضلع بارہ بنکی کے دیوا شریف کی انوکھی ہولی کے اپنے ہی رنگ ہیں اور یہاں تمام مذاہب کے لوگ ملک کے کونے کونے سے ہولی کھیلنے آتے ہیں۔
ہولی رنگوں کا تہوار ہے۔ یہ تہوار ہر جگہ اپنے انداز سے منایا جاتا ہے۔ متھرا ورینداون اور برسانا کی ہولی کو دیکھنے کے لئے بیرون ممالک سے سیاح بھی آتے ہیں۔ ہولی کو لوگ آپسی بھائی چارے کا تہوار بھی سمجھتے ہیں، برسانا کی لٹھ مار ہولی پورے ملک اور بیرون ممالک میں مشہور ہے۔ لیکن ابھی بات بارہ بنکی میں واقع صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہ کی مزار پر کھیلی جانے والی ہولی کی ہے۔
درگاہ پر کھیلی جانے والی ہولی میں مذہب کی حدیں ٹوٹتی نظر آتی ہیں
اتحاد کا پیغام دینے والے صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہ کی درگاہ پر کھیلی جانے والی ہولی میں مذہب کی حدیں ٹوٹتی نظر آتی ہیں۔ یہاں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ہولی کھیل کر ایک دوسرے کے گلے مل کر ہولی کی مبارکباد دیتے ہیں۔
ملک بھر سے ہندو، مسلمان، سکھ یہاں آکر حاجی وارث علی شاہ کی درگاہ پر ایک ساتھ ہولی کھیلتے ہیں۔ رنگ، گلاب اور پھولوں سے مختلف مذاہب کی طرف سےکھیلی جانے والی ہولی دیکھنے میں حیرت انگیز نظر آتی ہے۔
سینکڑوں برسوں سے جاری اس انوکھی ہولی کو دہلی سے مسلسل 30 برسوں سے کھیلنے آرہے سردار پرمجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ وہ ہولی پر گھر میں قید ہو جایا کرتے تھے، لیکن تیس سال قبل یہاں ہولی کھیلنے آئے تو یہاں کے بسنتی رنگ میں رنگ گئے اور شاید زندگی بھر یہ رنگ اترنے والا نہیں ہے۔ مرزاپور سے ہولی کھیلنے آئی خاتون نے بتایا کہ حاجی وارث علی شاہ کے پیغام سے اتنی متاثر ہوئی کہ وہ اب ہمیشہ یہاں ہولی کھیلنے آتی ہیں۔
یہاں ہولی گزشتہ 100 سے زیادہ سے کھیلی جا رہی ہے۔ پہلے یہاں اتنی بھیڑ نہیں ہوتی تھی اور قصبے کے ہی لوگ یہاں کی وارث سرکار کے قدم پر رنگ چڑھاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہولی کی شکل تبدیل ہوگئی اور باہر سے لوگ یہاں ہولی کھیلنے آنا شروع ہوگئے۔