میانمار میں خونریزی، ظلم وبربیت اور جابرانہ حکمرانی کی ایک تاریخ رہی ہے جہاں غیر ملکی کہہ کر روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو کبھی خود آپس میں ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ یہاں ایک بار پھر خون خرابے کا دور ہے۔
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
میانمار کے مختلف شہروں میں روز لاشیں بچھائی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے۔ بس اس بار فرق یہ ہے کہ اس خون خرابے میں وہی لوگ آمنے سامنے ہیں، جو اس سے پہلے ہوئی خونریزی پر ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپاتے تھے۔ کیوں کہ اُس وقت نشانہ روہنگیائی مسلمان تھے۔
روہنگیائی مسلمانوں کی بے بسی اور ان کی مظلومیت پر ہنسنے والے ہی آج خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ میانمار کی وہی فوج جو کچھ برس پہلے روہنگیا مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ کر رہی تھی، ان کے خون کی پیاسی بنی ہوئی تھی اور نام نہاد امن کی علمبردار آنگ سان سوچی اور ان کے حامی نہ صرف خاموش تماشائی بنےتھے، بلکہ فوج کی جابرانہ کارروائیوں پر تالیاں بجا رہے تھے، آج وہی فوج ان لوگوں کے ساتھ بھی وہی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جب کسی کے منہ کو خون لگ جاتا ہے، تو وہ پھر کسی کو نہیں چھوڑتا۔ آج میانمار کی سڑکوں پر صرف فوج کے بوٹوں کی آواز ہے اور گولیوں کی گڑگڑاہٹ۔ پورے ملک میں چہار سو تاریکی ہ اور سناٹا ہے۔روہنگیا مسلمانوں کے حقوق اور ان کی آواز کو نظر انداز کر دینے والے آج جب انسانی حقوق اور جمہوریت کی آواز بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو انھیں یا تو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جا رہا ہے یا پھر جیلوں میں ٹھونس دیا جا رہا ہے۔اب سوچی اور ان کے حامیوں کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ؎
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں تم نے مجھے برباد کیا
در اصل تازہ مسئلہ فوج اور جمہوری حکومت کے درمیان ٹکراؤ کے بعد پیدا ہوا۔ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے برسر اقتدار جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی رہنما آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔فوج کی تازہ بغاوت گزشتہ برس انتخابات کے بعد قائم ہونے والی منتخب حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی کے نتیجے میں سامنے آئی۔
بغاوت پر تشدد مظاہرے
آنگ سان سوچی اور دیگر سیاسی لیڈران کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد میانمار کی فوج نے ٹی وی پر اس بات کا اعلان کیا کہ وہ ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کرتی ہے۔ فوج نے کہا کہ وہ کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپ رہی ہے۔ اس کے بعد یہاں عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
دھیرے دھیرے یہ مظاہرے تشدد میں تبدیل ہو گئے۔ یکم فروری کو فوج کی بغاوت اور اقتدار پر قبضے کے بعد سے جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں اب تک کم از کم ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت این ایل ڈی کو نومبر 2020 کے عام انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی، لیکن فوج کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھوکہ دہی کی گئی تھی۔در اصل فوج نے بہت سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے۔ کیوں کہ ایک دن کے بعد ہی میانمار کی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہونا تھا، اور جس کے دوران الیکشن کے نتائج کی توثیق ہونی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔
فوجی بغاوت اور آئین میانمار
میانمار میں ہونے والی حالیہ فوجی بغاوت نے پورے ملک میں غم و غصہ پیدا کردیا۔ میانمار میں 50 برس تک جابرانہ فوجی حکومتیں قائم رہیں اور بالآخر 2011 میں اس ملک نے جمہوری حکمرانی کی طرف پیش قدمی کی اورملک کا نظام ایک منتخب حکومت کے پاس آیا۔ لیکن پسِ پردہ رہتے ہوئے میانمار کی فوج نے معاملات پر اپنی گرفت انتہائی مضبوط رکھی، اور یہ میانمار کے آئین کی وجہ سے ممکن ہوا۔
نومبر کے انتخابات میں یہ دیکھا گیا کہ فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیرٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) کچھ ووٹ ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن فوج اس کے باوجود حکومتی فیصلوں پر اثر انداز رہی۔ اس کی وجہ 2008 کا آئین ہے، جو فوجی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کی بدولت فوج کو خود سے پارلیمان میں ایک چوتھائی سیٹیں مل جاتی ہیں اور انہیں داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی اہم وزارتیں بھی دی جاتی ہیں۔ لہذافی الحال میانمار کی فوج کو کنٹرول کرنا اور اس کی ظلم و بربریت پر قدغن لگانا وہاں کے عوام کے لئےآسان نہیں ہے۔
آنگ سان سوچی انسانی حقوق کی پامالی کی مجرم
جہاں تک آنگ سان سوچی کا معاملہ ہے تو اس وقت دنیا کی نگاہوں میں وہ خود انسانی حقوق کی پامالی کی مجرم ہیں۔ کیوں کہ دسمبر 2009 میں جب میانمار کی سرگرم رہنما آنگ سان سوچی نے ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں خطاب کیا، تو امن کی نوبل انعام یافتہ شخصیت کے بہت سے حامیوں نے اس وقت انہیں مایوسی سے دیکھا جب انہوں نے ان الزامات کی تردید کی کہ میانمار کی فوج نے روہنگیا مسلم آبادی کے خلاف استبدادی کارروائیاں کی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کے اقدامات دہشت گردی کے خلاف جائز ردعمل تھے۔ ان کا یہ عمل یقیناً کسی حیران کُن ستم ظریفی سے کم نہیں تھا۔ میانمار میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے ولے اقوام متحدہ کےایک مندوب نے اسی وقت کہا تھا کہ ’اپنی آنکھیں کھولیں۔ براہ کرم اپنی اخلاقی اتھارٹی کو استعمال کریں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘
غور طلب ہے کہ 2010 میں جب وہ نظر بندی سے رہا ہوئیں تو دنیا بھر نے ان کا خیر مقدم کیا تھا۔ ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا تھا۔ مختلف حکمرانوں اور سربراہان مملکت نے آنگ سان سوچی کو خوش آمدید کہا تھا۔ اُس وقت وہ ایک ایسی خاتون کی شکل میں دنیا کے سامنے آئی تھیں جنھوں نے اپنی جوانی کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جمہوریت کے حصول میں وقف کیا۔
آنگ سان سوچی کو کسی زمانے میں انسانی حقوق کی ایک عالمی ا مید بھی سمجھا جاتا تھا، جو اس فوجی حکومت کے خلاف کھڑی ہو گئی تھیں، جس نے انہیں 2010تک، 20 سال کے بیشتر عرصے میں قیدی بنا کر رکھا تھا۔ 1991 میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی شخصیت 2016 میں میانمار کی عوامی حکومت کی رہنما بن گئی تھیں۔
خود میانمار کے انصاف پسند لوگوں کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی ایک ایسی شخصیت تھیں، جو لوگوں کو باہم منظم رکھ سکتی تھیں۔ انہیں ملک بھر کے تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کی پذیرائی حاصل تھی۔ لیکن افسوس انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے اس کے برعکس کام کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھتی ہیں۔
میانمار کے تازہ حالات پر عالمی برادری فکر مند
اس میں کوئی شک نہیں کہ میانمار کے تازہ حالات نے پوری دنیا میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ یہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی برادری فکر مند ہے۔ لیکن میانمار کے تازہ حالات کے پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی تاناشاہی اور حقوق انسانی پرحملہ آوروں کی پشت پناہی کرنے والے ایک نہ ایک دن خود اس کی زد میں آتے ہیں۔
جب بھی ظلم و زیادتی پر پردہ پوشی کی جائے گی، تو اسی طرح کے حالات پیدا ہوں گے۔ میانمار کے حالات بتاتے ہیں کہ اگر آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ پر فوجی حکمرانوں کے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کی ہوتی تو شاید آج انھیں خود ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
جس وقت میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کو روندا گیا، اگر اسی وقت سوچی اپنی آواز بلند کرتیں، تو وہ دنیا کی نظروں میں ایک بار پھر سرخرو ہوتیں اور میانمار کی فوج کے ناپاک عزائم کو دوبارہ حوصلہ نہیں ملتا، لیکن ایسا نہیں ہوا، اور آخر کار سوچی خود اسی فوج کے عتاب کا شکار ہو گئیں، جس کی جابرانہ پالیسوں کے خلاف انھوں نے خاموشی اختیارکر لی تھی۔
[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں | ای میل: yameen@inquilab.com]
ادارے کا مضمون نگار کے آراء و افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں