بینکوں کی نجکاری کے لئے ہڑتال دوسرے دن میں داخل ہوگئی ہے۔ نوجوان ملازمین اس احتجاجی مظاہرہ میں آگے رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے نجکاری کے خطرات کو سمجھا ہے۔ وہ ملازمت کی طمانیت کے مستحق ہیں جو بینکس کی نجکاری پر متاثر ہوگی۔
حیدرآباد: عوامی شعبہ کے بینکس کی مجوزہ نجکاری کے مرکز کے فیصلے کے خلاف بطور احتجاج 9 بینک یونینس کی تنظیم یونائیٹڈ فورم آف بینک یونینس (یوایف بی یو) کی ملک گیر ہڑتال دوسرے دن میں داخل ہوگئی ہے۔ پیر سے ملک بھر میں بینکنگ سرگرمیاں متاثر ہوگئی ہیں کیونکہ تقریبا دس لاکھ ملازمین، عہدیدار اور منیجرس ہڑتال پر چلے گئے۔
یو ایف بی یو کا اجلاس ہڑتال کے بعد ہوگا جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کو ترتیب دینے کے لئے تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ آل انڈیا بینک ائمپلائز ایسوسی ایشن (اے آئی بی ای اے) کے جنرل سکریٹری سی ایچ وینکٹ چلم نے یو این آئی کو یہ بات بتائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہڑتال کامیاب رہی اور معمول کی بینک سرگرمیاں متاثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر ریاستوں سے موصول ہونے والی اطلاعات میں کہا گیا کہ ہڑتال کامیاب رہی۔ کئی برانچس بند رہیں۔ صرف چند برانچس جس میں اسکیل چھ اور اسکیل پانچ کے سینئر عہدیدار جیسے چیف منیجرس اور اسسٹنٹ جنرل منیجرس خدمات انجام دیتے ہیں ہی کھلی رہیں۔ ان بینکس نے ہڑتال کا احاطہ نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان برانچس میں کوئی معاملات نہیں ہوئے کیونکہ دیگر اسٹاف ہڑتال میں شامل ہوگیا۔
وینکٹ چلم نے کہا کہ ممبئی، دہلی، کولکتہ، حیدرآباد، بنگالورو، احمد آباد، رانچی، آگرہ، بھوپال، چندی گڑھ، جے پور، تروننتاپورم، رائے پور، راجکوٹ، بھونیشور، ناگپور، گوہاٹی، جموں، اگرتلہ، شملہ اور پنجی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ ہڑتال کامیاب رہی۔
نوجوان ملازمین احتجاجی مظاہرہ میں آگے رہے
انہوں نے کہا کہ نوجوان ملازمین اس احتجاجی مظاہرہ میں آگے رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے نجکاری کے خطرات کو سمجھا ہے۔ وہ ملازمت کی طمانیت کے مستحق ہیں جو بینکس کی نجکاری پر متاثر ہوگی۔
وزیر فائنانس نرملاستیارمن نے یکم فروری کو بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکومت آئی ڈی بی آئی کے علاوہ دیگر دو بینکس کی نجکاری کرے گی۔ یہ نجکاری مرکز کی سرمایہ نکاسی پالیسی کے حصہ کے طور پر کی جائے گی۔ اس ہڑتال کی وجہ سے رقم نکالنے، رقم جمع کرنے، چیکس کلیرنس اور دیگر خدمات متاثر رہیں۔
ساتھ ہی ٹریثری اور دیگر تجارتی معاملات پر بھی اثر پڑا اور صارفین کو مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ عوامی شعبہ کے تمام بینکس بہتر طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور منافع میں ہیں۔ مارچ 2020 تک ان بینکس نے 174,000 کروڑ روپے کا جملہ منافع حاصل کیا ہے۔ تاہم ان بینکس کو 200,000 کروڑ کے قرض واجب الادا ہیں اور اس سے 26,000 کروڑ روپئے کا جملہ نقصان ہوا ہے۔ اسی لئے اگر پرائیویٹ کارپوریٹ اداروں سے یہ رقم وصول کی جاتی ہے تو بینکس مزید آمدنی حاصل کر پائیں گے۔ اے آئی بی ای اے کے جنرل سکریٹری نے مزید کہا کہ عوامی شعبہ، بھاری قرض جو واپس نہیں کیا گیا ہے، کے لئے ذمہ دار ہے۔
وینکٹ چلم نے کہا کہ مرکزی ٹریڈ یونینس کے مشترکہ پلیٹ فارمس نے اس ہڑتال کی حمایت کی ہے اور بینکس کی نجی کاری کی مخالفت کی۔ بھارتیہ کامگار سیوا نے اپنے بینکس کی یونینوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہڑتال کریں۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر ٹریڈ یونینس جن کا تعلق مختلف صنعتوں سے ہے نے بھی اپنی حمایت دی ہے۔
ایل آئی سی اور جی آئی سی کی تمام یونینس نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کی
ایل آئی سی اور جی آئی سی کی تمام یونینس نے بھی اس ہڑتال کی حمایت کی ہے۔ بینکس کی دو روزہ ہڑتال کے بعد 17 مارچ کو جی آئی سی کمپنیوں کے ملازمین اور عہدیدار ہڑتال کریں گے۔ بعد ازاں اگلے دن ایل آئی سی کے ملازمین اور عہدیدار ایل آئی سی میں سرمایہ نکاسی کے خلاف اگلے دن ہڑتال کریں گے۔ اس طرح تمام مالیاتی شعبہ کی یونینس، بینکس اور انشورنس شعبہ کی نجکاری کی پالیسی کی مخالفت کررہا ہے۔ کانگریس، ڈی ایم کے، سی پی آئی، سی پی ایم، اے آئی ٹی سی، شیوسینا نے بھی اس ہڑتال کی کھل کر حمایت کی ہے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ نے بھی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اس مسئلہ کو اٹھایا ہے۔