ماہرین کی اس رائے کا مطلب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ اگر امیر ملکوں نے خود غرضی کا مظاہرہ جاری رکھا تو نہ صرف کورونا وائرس کی موجودہ عالمی وبا مزید 7 سال تک جاری رہے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ وبا ختم ہونے سے پہلے ہی کوئی اور عالمی وبا شروع ہو جائے۔
جنیوا: اگر امیر ملکوں نے کورونا ویکسین پر اپنی اجارہ داری ختم نہ کی تو کووڈ 19 کی وبا آئندہ 7 سال تک ساری دنیا پر مسلط رہ سکتی ہے۔ یہ انتباہ عوامی صحت اور وبائی ماہرین نے دیا ہے۔
خیال رہے 4 مارچ 2021 تک دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی 28 کروڑ 36 لاکھ خوراکیں دی جاچکی تھیں۔
تاہم اسی صورتِ حال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 75 فیصد خوراکیں صرف 10 امیر ممالک میں دی گئی ہیں جبکہ کئی غریب ممالک ابھی تک کورونا ویکسین سے مکمل طور پر محروم ہیں، جن کی مجموعی آبادی 2.5 ارب (ڈھائی ارب) کے لگ بھگ ہے۔
وجہ یہ ہے کہ بیشتر امیر ممالک نہ صرف اپنی ضرورت سے زائد کورونا ویکسین خرید چکے ہیں بلکہ اپنے یہاں ویکسین بنانے والے اداروں کو پابند کرچکے ہیں کہ وہ حکومتی اجازت کے بغیر کووڈ 19 ویکسین کسی بھی دوسرے ملک کو فروخت نہیں کریں گے۔
مثلاً امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمات (این ایچ ایس) اور فائزر/ بائیو اینٹیک میں طے پانے والا معاہدہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اس سے صرف امریکہ اور فائزز کو فائدہ پہنچے، کسی اور کو نہیں۔ اس کے علاوہ یوروپ میں کورونا ویکسین کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر اٹلی نے بھی آسٹریلیا کے لئے کورونا ویکسین کی برآمد روک دی ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے
ماہرین خبردار کررہے ہیں کہ یہ رجحان، جسے ’ویکسین کساد بازاری‘ (ویکسین ہورڈنگ) اور ’ویکسین قوم پرستی‘ (ویکسین نیشنلزم) بھی کہا جارہا ہے، کورونا وائرس کی عالمی وبا کو مزید خطرناک اور طویل بنا سکتا ہے۔
ویکلی تحقیقی جریدہ ’نیچر‘ میں شائع ایک حالیہ مضمون میں عوامی صحت کے امریکی ماہر گیون یامی نے خبردار کیا ہے کہ اگر کووڈ 19 ویکسین کی عالمی تقسیم میں ناانصافی اور تعصب کا یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ وبا اگلے 7 سال تک دنیا پر مسلط رہے گی۔
یہ تخمینہ لگانے کےلیے انہوں نے ’گیم تھیوری‘ کا استعمال کیا۔
دیگر ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ امیر ممالک کے تمام لوگوں میں کورونا ویکسین لگنے کے باوجود بھی یہ وبا دنیا کی اکثریتی آبادی کو متاثر کررہی ہوگی جس کا خمیازہ ان امیر ممالک کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
نیا وائرس بھی وجود میں آسکتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس میں خود کو تیزی سے تبدیل کرنے کی زبردست صلاحیت ہے۔ لہذا اگر امیر ملکوں میں بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کے بعد بھی یہ وائرس غریب ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد کو متاثر کرتا رہا، تو اسے خود کو بدلنے کے اور بھی زیادہ مواقع ملیں گے جن کے نتیجے میں ایک ایسا نیا وائرس بھی وجود میں آسکتا ہے جس کے خلاف ہماری موجودہ کورونا ویکسینز ناکارہ ہوں گی۔
اب اگر اس نئے وائرس کے پھیلاؤ کی صلاحیت اور ہلاکت خیزی بھی زیادہ ہوئیں تو ہمارا سامنا کسی نئی عالمی وبا سے ہو سکتا ہے جو شاید موجودہ (کووِڈ 19) عالمی وبا سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو۔
ماہرین کی اس رائے کا مطلب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ اگر امیر ملکوں نے خود غرضی کا مظاہرہ جاری رکھا تو نہ صرف کورونا وائرس کی موجودہ عالمی وبا مزید 7 سال تک جاری رہے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ یہ وبا ختم ہونے سے پہلے ہی کوئی اور عالمی وبا شروع ہوجائے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غریب ممالک میں کووڈ 19 وبا کی بڑے پیمانے پر موجودگی سے امیر ممالک کو بھی شدید نقصان پہنچے گا جس سے ان کی معاشی نمو متاثر رہنے کا سلسلہ دراز ہوسکتا ہے۔
جب تک سب محفوظ نہیں، تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں
البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے پروگرام ’کوویکس‘ کے تحت دنیا کے غریب ترین ممالک تک کورونا ویکسین پہنچانے کا آغاز ہو چکا ہے جن میں افریقہ سے گھانا، مالی اور ملاوی شامل ہیں۔
اس پروگرام کا نعرہ ہے: ’جب تک سب محفوظ نہیں، تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں!‘
’کوویکس‘ پروگرام کا ہدف ہے کہ 2021 کے اختتام تک دنیا کے 92 غریب ممالک میں کورونا ویکسین کی دو ارب خوراکیں عام لوگوں کو لگا دی جائیں۔