راہل اور پرینکا گاندھی بھلے ہی شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک مہم میں مصروف ہیں اور پارٹی کی مضبوطی کے لئے مسلسل تگ و دو کر رہے ہیں، لیکن وہیں دوسری جانب پارٹی کے سینئر ترین اور پرانے لیڈران پارٹی کے خلاف ہی محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
پانچ اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ یہ اہم ریاستیں ہیں مغربی بنگال، آسام، کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری۔ اس کے علاوہ کچھ حلقوں میں ضمنی انتخاب بھی ہونا ہے۔ کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری میں اسمبلی انتخابات 6 اپریل کو ایک ہی مرحلہ میں ہوں گے۔ جبکہ آسام میں تین مرحلوںاور مغربی بنگال میں سب سے زیادہ 8 مراحل میں ووٹرس اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ جبکہ 2 مئی کو سبھی ریاستوں کے نتیجے منظر عام پر آ جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں اور اس کے لیڈران و کارکنان کے لئے یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی کامیابی کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں اور سب لوگ دل و جان سے انتخابی مہم میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ لیکن کانگریس میں فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ یہاں تو تصویر اس کے بالکل بر عکس نظر آتی ہے۔
راہل اور پرینکا گاندھی بھلے ہی شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک مہم میں مصروف ہیں اور پارٹی کی مضبوطی کے لئے مسلسل تگ و دو کر رہے ہیں، لیکن وہیں دوسری جانب پارٹی کے سینئر ترین اور پرانے لیڈران پارٹی کے خلاف ہی محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔
ان میں اکثر وہ لیڈر ہیں جو ماضی میں پارٹی سے لے کر حکومت تک میں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ بظاہر یہ لیڈر پارٹی کی بہبود اور مضبوطی کے لئے مہم چلا رہے ہیں، لیکن حقیقتاً ان کے اقدامات سے لگتا ہے کہ یہ لوگ پارٹی کے اقتدار سے باہر ہونے کے سبب خود کو ’خالی‘ محسوس کر رہے ہیں۔
کانگریس کا خراب دور
اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس اس وقت اپنے سب سے خراب دور سے گزر رہی ہے، لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اپنے اور پرائے کی پہچان برے وقت میں ہی ہوتی ہے۔ لہذا جی 23 کے نام سے مشہور لیڈران نے اس وقت جو مہم چلائی ہے، کیا یہ وقت ان کے لئے مناسب تھا؟ کیا عوامی سطح پر مسائل کو اٹھا کر وہ پارٹی کا کچھ بھلا کر سکتے ہیں؟ سیاسی پارٹیوں میں عروج و زوال اور باہمی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی جماعت ہمیشہ اقتدار میں ہی رہے۔ ایسا جمہوری نظام کے لئے مناسب بھی نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ تو بالکل نہیں کہ انتخابات کی سرگرمیوں کو چھوڑ کر آپ محاذ آرائی میں مصروف ہو جائیں۔
یہ وقت تو کانگریس کے لئے بہت نازک ہے۔ اس سے پہلے سب نے دیکھا ہے کہ کس طرح پارٹی لیڈران کی اسی رسہ کشی کے سبب کرناٹک، مدھیہ پردیش اور پڈوچیری میں کانگریس اقتدار گنوا چکی ہے۔ راجستھان کا معاملہ بھی کب کیا رخ اختیار کر لے، کہا نہیں جا سکتا ہے۔
پانچ ریاستوں کے انتخابات اور کانگریس
فی الحال تو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سر پر ہیں۔ یہاں اگر چہ کانگریس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے، لیکن اگر پارٹی لیڈران متحد ہو کر کوشش کریں تو یہ برے وقت میں کانگریس کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو سکتا ہے۔
تمل ناڈو اور آسام میں کانگریس کے لئے راہیں کافی ہموار نظر آ رہی ہیں۔ جبکہ کیرالہ اورپڈوچیری میں بھی کانگریس کے امکانات کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں، مغربی بنگال میں ضرور کانگریس کی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ انتخابات بی جے پی کے لئے ’واٹر لو‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہذا کانگریس اور بی جے پی دونوں کے لئے یہ انتخابات کافی اہم ہیں۔
انتخابی مہم کو دیکھیں تو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور پارٹی صدر جے پی نڈا سمیت پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر ان ریاستوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ وہیں کانگریس میں راہل اور پرینکا کے علاوہ کوئی بڑا لیڈر نظر ہی نہیں آ رہا ہے۔ جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں وہاں کی موجودہ صورت حال پر نظر ڈالیں تو مغربی بنگال میں اسمبلی کی 294 سیٹیں ہیں۔ یہاں پچھلے اسمبلی انتخابات 2016 میں ترنمول کانگریس کو211، کانگریس کو44، بایاں محاذ کو 32، بی جے پی کو تین اور دیگر کو4 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔
ریاستوں کے انتخابی رجحانات
رجحان بتا رہے ہیں کہ ترنمول کانگریس ایک مرتبہ پھر اقتدار میں واپسی کرے گی۔ آسام میں 124 سیٹیں ہیں۔ یہاں تین مرحلوں میں ووٹنگ کرائی جائے گی۔ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے60 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اے جی پی نے14 ، کانگریس نے26 ، اے آئی یو ڈی ایف نے13 ، بی او پی ایف نے 12اور دیگر نےایک سیٹ حاصل کی تھی۔ لیکن اس مرتبہ بی جے پی کے ہاتھ سے بازی نکلتی نظر آ رہی ہے اور بہت ممکن ہے کہ کانگریس اپنے اتحادیوں کے ساتھ اقتدار میں واپسی کر لے۔
کیرالہ کی اگر بات کریں تو یہاں اسمبلی کی 140 سیٹیں ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مقابلہ ایل ڈی ایف اور یو ڈی ایف کے درمیان ہی رہے گا۔2016 کے اسمبلی انتخابات میں ایل ڈی ایف نے84 سیٹیں حاصل کی تھیں، جبکہ یو ڈی ایف کو47 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔
مغربی بنگال کے بعد تمل ناڈو ایک بڑی ریاست ہے۔ یہاں اسمبلی میں 234 نشستیں ہیں۔ 2016 میں اے آئی اے ڈی ایم کے نے135 نشستیں حاصل کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، لیکن اس بار ڈی ایم کے اور کانگریس سے اسے سخت چیلنج کا سامناہے۔ اس کے علاوہ مرکز کے زیر انتظام ریاست پڈوچیری میں 30 نشستیں ہیں۔ یہاں اس وقت صدر راج نافذ ہے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے 15 سیٹیں، آل انڈیا این آر کانگریس نے 8، اے آئی اے ڈی ایم کے نے4 اور دیگر نے ایک سیٹ حاصل کی تھی۔
کانگریس کی خانہ جنگی
اس وقت کانگریس میں جو کچھ ہو رہا ہے، کیا وہ بی جے پی میں ممکن ہو سکتا ہے، شاید نہیں۔ نہ تو مودی اور امت شاہ کے دور میں اورنہ ہی اٹل اور اڈوانی کے دور میں کبھی ایسا کچھ دیکھنے کو ملا۔ ایک دو مفاد پرست تو کہیں بھی اور کسی بھی سیاسی جماعت میں ہو سکتے ہیں۔ لیکن کانگریس میں یہ ایک روایت سی بن گئی ہے۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس میں مودی اور امت شاہ جیسے سخت فیصلے لینے والی قیادت کا فقدان ہے؟ یا پھر نہرو گاندھی خاندان کی فطرت میں یہ نہیں ہے کہ وہ سخت گیری کا مظاہرہ کریں۔ شاید اسی بات کا ناجائز فائدہ کانگریس کے بڑے بڑے لیڈر اٹھاتے رہے ہیں۔ ورنہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جیسے ہی کسی عہدے سے ہٹایا جاتا ہے یا مدت کار پوری ہو جاتی ہے، اس کے بعد پارٹی میں خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ کانگریس کے لیڈران کی یہی سب سے بڑی پریشانی ہے۔
کانگریس لیڈران بنام نہرو خاندان
یاد کریں 2004 سے پہلے کا زمانہ، جب کانگریس کو تقریباً ختم مان لیا گیا تھا۔ پارٹی کے پرانے پرانے سپاہی کانگریس کو ڈوبتی کشتی سمجھ کر کودنے لگے تھے۔ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی حکومت اور بی جے پی میں انھیں اپنا مستقبل نظر آرہا تھا۔ این ڈی اے حکومت کے ’شائننگ انڈیا‘ کے پُر فریب نعرے میں ایسے کھوئے کہ وہ اپنا ماضی بھلا بیٹھے۔ ایسے موقع پر بھی نہرو گاندھی خاندان نے ہمت نہیں ہاری اور جن سونیا گاندھی کو غیر ملکی کے تمغے سے نوازا جا رہا تھا، انہی کی قیادت میں پارٹی نے اقتدار میں شاندار واپسی کی۔
پارٹی کے اندر اور باہر جب گاندھی خاندان کی بہو سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کو ایشو بنایا گیا، تو انہوں نے ایثار اور قربانی کی شاندار مثال پیش کی۔ جب سونیا گاندھی کے وزیر اعظم بننے پر سوال اٹھائے گئے توانھوں نے بلا تاخیر پارٹی کے مفاد کی خاطر وزیر اعظم کے عہدے کو قربان کر دیا اور ایک انتہائی قابل اور خاموش مزاج ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کر دیا۔
ہندوستانی سیاست میں ایثار و قربانی کی ایسی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ 2009 میں ایک بار پھر عام انتخابات میں کانگریس کی قیادت والے یو پی اے کو اقتدار میں واپسی ہوئی۔ اس کے بعد بھی اگر سونیا گاندھی چاہتیں تو اپنے بیٹے راہل گاندھی کو وزیر اعظم بنا سکتی تھیں، لیکن ایک بار پھر منموہن سنگھ پر ہی اعتماد کیا۔
پچھلے تیس سال سے نہرو گاندھی خاندا ن کا کوئی فرد وزیر اعظم نہیں بنا، جبکہ کانگریس کئی مرتبہ اقتدار میں رہی۔ اب پارٹی میں ہر کوئی تو وزیر اعظم نہیں بن سکتا، لہذا سینئر لیڈران کو چاہئے کہ اگر وہ واقعی گاندھی کے نظریات کی جنگ لڑ رہے ہیں تو متحد ہو کر کانگریس کے لئے کام کریں۔