دہلی کی ہوا پاکستان اور افغانستان کی ’زہریلی ہوا‘ کے سبب مزید خراب

فضائی آلودگی کا بحران شدت اختیار کر گیا: سرحد...

این ایچ آر سی کے پروگرام کا اختتام، آٹھ ممالک کے 33 نمائندگان ہوئے شامل

جنوبی نصف کرے کے ترقی پذیر ممالک کے انسانی...

جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب: انڈیا اتحاد کی حکومت بننے کا دعویٰ، ملکارجن کھڑگے کا بیان

جھارکھنڈ انتخابات میں ملکارجن کھڑگے کا دعویٰ، انڈیا اتحاد...

حکومت کے فیصلوں پر بے اطمینانی کے درمیان ٹوئیٹر، ٹول کٹ اور کسان تحریک

کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ لیکن اب ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ اگر حکومت وقت کے فیصلوں پر کوئی اعتراض کرے یا نا اتفاقی ظاہر کرے تو اسے حکومت کا نہیں بلکہ ملک کا دشمن سمجھ لیا جاتا ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

حکومت کے فیصلوں پر نا اتفاقی اور عدم اطمینان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جمہوریت میں اس نا اتفاقی اور عدم اطمینانی کے خلاف عوام کو اپنی بات رکھنے کا پورا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک کی خوبصورتی بھی یہی ہوتی ہے کہ اس ملک کے عوام کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو۔ اس میں وہ حکومت کے فیصلوں اور اس کے اقدامات پر بلا جھجک اپنے رائے پیش کر سکیں۔ اگر وہ حکومت کے اقدامات سے مطمئن ہیں تب بھی اور اگر مطمئن نہیں ہیں، تب بھی۔

یعنی عوام اپنی آواز براہ راست یا حزب اختلاف کے ذریعہ سرکاری ایوانوں تک پہنچا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں نہ جانے کتنے چھوٹے بڑے، کامیاب اور ناکام احتجاج ہوئے ہیں۔ احتجاجات کے دوران کئی مرتبہ حکومت اور عوام کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت بھی آئی، لیکن ان حکومتوں نے نہ تو اپنی ضد میں عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی اور نہ ہی انھیں ملک دشمن یا غدار ٹھہرایا گیا۔

چونکہ کسی بھی جمہوری ملک میں حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ اگر حکومت وقت کے فیصلوں پر کوئی اعتراض کرتا ہے یا نا اتفاقی ظاہر کرتا ہے تو اسے حکومت کا نہیں، ملک کا دشمن سمجھ لیا جاتا ہے، اسے مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ یعنی آج ملک میں یہ ایک رواج بن چکا ہے اور ایک طرح سے اس رواج کو سرکاری سند حاصل ہو گئی ہے۔

ہم بار بار اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ پچھلے کچھ برسوں میں جب بھی عوامی احتجاج ہوئے ہیں، انھیں سبوتاژ کرنے کے لئے نئے نئے حربے تو استعمال کئے ہی گئے ہیں، ساتھ ہی مظاہرین اور احتجاج کرنے والوں کو ملک دشمن اور غدار ثابت کیا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثالیں طلبہ کی تحریک، شہریت ترمیمی قانون مخالف احتجاج اور کسان تحریک ہیں۔

اس وقت ملک ہی نہیں، پوری دنیا کی نظریں تقریباً تین ماہ سے جاری کسانوں کے احتجاج پر ہیں۔ اس تحریک کو ختم کرنے کے لئے ہر طرحکے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ کبھی اسے ڈیڑھ ریاست کا احتجاج کہا جاتا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ اس میں چند کسان شامل ہیں، کبھی اسے نکسلیوں اور ماؤ نوازوں کا احتجاج کہا جا تا ہے، کبھی خالصتانی اوردہشت گرد کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ اگر چہ ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔ ان سب سے بھی بات نہیں بنتی تو حکمراں جماعت کے لیڈر اور کارکنان احتجاج گاہوں پر خلفشار مچاتے ہیں، توڑ پھور اور مار پیٹ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی پر عزم اور مضبوط ارادوں کے ساتھ پر امن طریقے سے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے سامنے ان لوگوں کو مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ کل ملا کر کوشش یہ ہے کہ کسی بھی طرح یہ احتجاج ختم ہوجائے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ کسان احتجاج ختم کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کا سیدھا کہنا ہے کہ تینوں زرعی قانون واپس لے لئے جائیں، وہ اپنا احتجاج واپس لے لیں گے۔ بہر حال، اب جبکہ یہ احتجاج بین الاقوامی سطح پر سرخیاں بن رہا ہے اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات اس کی حمایت میں سامنے آئی ہیں تو اس میں نئے تنازعات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ 26 جنوری کے افسوسناک واقعہ کے بعد حکومت نے سماجی رابطہ کی اہم ویب سائٹ ٹوئیٹر پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی۔ اس کے تحت ٹوئیٹر کو تقریباً 1500 اکاؤنٹس کی فہرست دی گئی۔ جس میں کہا گیا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ٹوئیٹر ان اکاؤنٹس کو بلاک کر دے، جن پر وزیرِ اعظم مودی اور حکومت کے خلاف ہیش ٹیگ کے ذریعہ مختلف ٹرینڈس چلائے جا رہے ہیں۔

حالانکہ حکومت نے جن اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی، ان میں کئی صحافیوں، خبررساں اداروں، اپوزیشن لیڈران اور سماجی کارکنان کے اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ ٹوئیٹر نے پہلے ان میں سے کچھ کو بلاک کیا، لیکن پھر ان کو بحال کر دیا۔ حکومت نے ایک بار پھر ٹوئیٹر کو نوٹس جاری کیا اور آخر کار ٹوئیٹر نے جانچ کے بعد ایسے تقریباً 90 سے 95 فیصد اکاؤنٹس بلاک کر دیے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان اکاؤنٹس پر غلط، اشتعال انگیز اور گمراہ کن مواد پوسٹ کیے جا رہے تھے اور ان میں سے کئی اکاؤنٹس کا تعلق خالصتان تحریک سے وابستہ تنظیموں سے تھا۔

اس سے پہلے مرکزی وزیر برائے اطلاعتی ٹکنالوجی روی شنکر پرساد نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹوئیٹر کو ہندوستانی آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہو گا، ورنہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ حکومت نے ٹوئیٹر پر دوہرے معیار اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اس نے امریکہ کے کیپٹل ہل پر ہوئے مظاہرے اوردہلی میں 26 جنوری کو لال قلعہ پر پیش آنے والے واقعات پر یکساں رخ اختیار نہیں کیا۔لیکن کیا حکومت اس بات کا جواب دے سکتی ہے کہ ٹوئیٹر پر اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف اس نے یکساں رویہ اختیار کیا؟

کسانوں کے احتجاج کے درمیان اب ایک نیا لفظ ’ٹول کٹ‘ سامنے آیا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ اس ’ٹول کٹ‘ اور اس کو استعمال کرنے والوں کو ایسے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے خونخوار دہشت گرد اور ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ پولیس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ بنگلور سے ماحولیاتی کارکن دشا روی کی گرفتاری کے بعد جب دہلی پولیس نے پریس کانفرنس کی تو ایسا ماناجا رہا تھا کہ وہ اس خوفناک’ ‘ٹول کٹ‘ کے بارے میں کچھ سنسنی خیز انکشافات کرے گی۔ لیکن دہلی پولیس کے جوائنٹ کمشنر نے کچھ لوگوں کو ٹول کٹ کے ذریعہ بد امنی پھیلانے کی کوشش کا مرتکب تو مانا، لیکن یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ لوگ بد امنی یا خلفشار پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے۔

اگرچہ دہلی پولیس نے اس پورے معاملہ کو 26 جنوری کو دہلی میں ہوئے تشدد کے معاملے سے بھی جوڑا۔ پولیس کے مطابق ٹول کٹ کا مقصد’ٹوئیٹر اسٹارمنگ‘ یعنی ٹوئیٹر پرآندھی جیسی کیفیت پیدا کرکے حکومت کے خلاف بے اطمینانی پیدا کرنا تھا۔دہلی پولیس نے نکیتا جیکب،شانتانو، پنیت اور دشا روی کو ٹول کٹ تیار کرنے اور اس کو ایڈٹ کرنے کا ملزم مانا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ تفتیش کے دوران، ٹول کٹ کے آن لائن اسکرین شاٹس کی جانچ کی گئی اور جانچ میں معلومات ملنے کے بعد ٹول کٹ گوگل دستاویز کو ایڈٹ کرنے پر نکیتا جیکب کے خلاف سرچ وارنٹ جاری کیا گیا۔

در اصل جس ٹول کٹ کو تعصب پرست میڈیا انتہائی خطرناک آلہ بتا رہا ہے، وہ بظاہر زیادہ سے زیادہ کسانوں کی تحریک کے بارے میں معلومات دینے، اس میں شامل ہونے کی دعوت دینے یا اس میں شامل ہونے کی معلومات دینے کاٹول کٹ معلوم ہوتا ہے، نہ کہ کسی تشدد، خون خرابہ یاملک سے غداری کی سازش کا ٹول کٹ۔

ویسے ٹکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میںکوئی بھی تحریک، ادارہ یا گروپ اپنے اہداف کے لئے ٹول کٹ بنا سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی یہ ٹول کٹس بن چکے ہیں۔ لیکن میڈیا کا ایک طبقہ عوام کے سامنے اسے ایسے پیش کر رہا ہے کہ یہ کوئی نئی انتہائی خطرناک چیز ہے اور اس کا نام پہلی بار سامنے آیا ہے۔ آخر پولیس کی مکمل جانچ سے پہلے ہی میڈیا ٹول کٹ کو دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟

در اصل حکومت وقت نے احتجاج اور مخالفت کو دبانے کے لئے اب تک جو طریقے اختیار کئے ہیں، کسان تحریک اور کسانوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی وہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ یعنی حکومت واضح طور پر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اگر آپ کسی سرکاری اقدام یا کسی سرکاری فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر سزا کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار رہیں۔ اسے حکومت کا خوف کہیں یا پھر عوام کو خوفزدہ کرنے کا طریقہ، لیکن اتنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ جب کوئی سرکار عوام کی اپنے حقوق کے تئیں بیداری سے خائف ہو جاتی ہے تو وہ اپنے عوام کو احتجاج اور مظاہروں سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ حکمراں طبقہ جب طلبہ مظاہرہ کریں توو ہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ، سماجی کارکن مظاہرہ کریں تو اربن نکسل، مسلمان مظاہرہ کریں تو وہ پاکستانی اور ملک دشمن، کسان اور سکھ مظاہرہ کریں تو وہ خالصتانی اور غدارکے خطابات سے نوازتا ہے۔ لیکن اب سچائی پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکی ہے۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں