یہ خوشی کا موقع زندگی میں باربار نہیں آتا۔ ہر ایک کے ارمان ہوتے ہیں، اگر ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتا ہے اور خوشی مناتا ہے تو اس میں بُرائی کیا ہے؟ آدمی اپنے لئے کماتا ہے۔ خود پر خرچ نہیں کرے گا تو پھر کس پر کرے گا؟ ہاں فضول خرچی نہیں ہونی چاہئے اور اسراف اور بے حیائی نہیں ہونی چاہئے۔ زمانے کے ساتھ تو چلنا ہی پڑتا ہے۔ اگر لڑکے لڑکیاں ایسے موقع پر کچھ ناچ گانا، کچھ ہنسی مذاق کرلیتے ہیں تو انہیں روکا تو نہیں جاسکتا۔ یہ عمر کا تقاضہ ہے۔
تحریر: ڈاکٹر علیم خان فلکی
اس موقع پر تحفے دیئے جاتے ہیں، تحفے دینا تو یوں بھی سنّت ہے۔ اور اگرلوگ پارٹی کرتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں یا کھلاتے ہیں تو اس میں خرابی کیا ہے؟ آنے والے مہمانوں کو بھوکا تو نہیں بھیجا جاسکتا ہے۔ لوگ دور دور سے آتے ہیں۔اور مہمان نوازی تو سنّت ہے۔ ہاں یہ چیزیں کچھ لوگ قرض لے کر کرتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ بعض حضرات اسے حرام کہتے ہیں۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ چیزیں مناسب نہیں ہیں، لیکن اِسے حرام کہہ دینا شدّت پسندی ہے، اورشدّت پسندی اسلام میں جائز نہیں ہے۔ نماز ہم بھی پڑھتے ہیں، ہم بھی عمرہ کرتے ہیں، لیکن دین اور دنیا میں اعتدال برتتے ہیں، نہ تو پوری دنیاداری میں ڈوب جاو، نہ پوری دینداری اختیار کرکے دنیا سے کٹ کر رہ جاو۔یہ ہے میانہ روی جو اسلام کا بھی تقاضہ ہے اور سمجھ داری کا معیاربھی۔
یہاں تک کی تحریر پڑھ کر مولوی حضرات تو یقناً ہم پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے۔ جو مولوی نہیں ہیں وہ بھی مولویوں سے زیادہ غضب میں آجائیں گے،کیونکہ ویلنٹائن، کرسمس، نیو ایئر وغیرہ ان سب کے نزدیک حرام ہیں۔ حرام کی بنیاد سب کو زبانی یاد ہے، وہ یہ ہے کہ یہ غیر قوم کی نقل ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہمیں سنائیں گے کہ ”من تشبہ بقوم فھو منھم“ یعنی جو جس قوم کی نقل کرے گا وہ انہی میں سے اٹھایا جائیگا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ ساری خرافات یہودیوں اور نصرانیوں کی ہیں۔ قرآن نے کئی جگہ سخت وارننگ دی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے راستے پر مت چلو۔ ان حرام کاریوں میں نہ ان کا ساتھ دو اور نہ ان سے دوستی رکھو۔ وہ تم کو بے حیائی اور بدکاری کی طرف لے جائیں گے، اور وہ تم کو اپنے دین میں داخل تو نہیں کرسکتے لیکن تم کو تمہارے اپنے دین سے دور کردیں گے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر ویلنٹائن اور نیوایئیر یہود ونصٰرٰی کی خرافات ہیں تو یہ جو ہم مسلمانوں کی شادیوں میں دیکھتے ہیں کہ منگنی، بارات، جہیز، جوڑا یا ہُنڈا، سانچق، مانجے، جمعگی، نوروز، مبارکہ، شادی کی صرف ایک رات بلکہ چند گھنٹوں کے لئے ہزاروں روپیہ کا دلہن کا جوڑا، وغیرہ اور پھر دلہن کی پہلی زجگی ہونے پر دواخانے کا خرچ، جھولا، چِھلّہ، چھٹّی وغیرہ، اِن ساری رسموں پر لڑکی کے ماں باپ کو خوب خرچ کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ گھر فروخت کر کے کریں یا سود پر پیسہ لا کر کریں یا بھیک اور زکوٰۃ مانگ کرکریں۔اور خود لڑکے والے کون سی کمی کرتے ہیں، مہر ادھار رکھ کر جہیز نقد وصول کرتے ہیں، ہُنڈے یا جوڑے کی رقم سے ولیمہ بھی کرتے ہیں، اور اپنے پیسے بھی شامل کرکے ولیمہ کی سنّت میں خلافِ سنّت بلکہ سنّت کے مذاق اڑانے والی بے شمار حرکتیں شامل کرڈالتے ہیں جیسے سینکڑوں مہمانوں کو جمع کرنا، تاشے، مرفے، ناچ گانے، ڈیکوریشن، کئی کئی ڈِش کے دسترخوان، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری رسمیں اگر یہود و نصاری کی نہیں ہیں تو کیا جائز ہوگئیں؟
صرف اس لئے کہ یہود ونصرٰی تو ہزاروں میل دور امریکہ اور اسرائیل میں بیٹھے ہیں، لیکن مشرکین تو ہمارے پڑوسی ہیں، لہذامشرکین کی یہ ساری رسمیں جائز ہیں؟ غیر قوم کی تشبّہ کا حکم کیا مشرکین کے رسم و رواج اپنانے پر لاگو نہیں ہوتا؟
اسلام میں نکاح کا صرف ایک کھانا جائز بلکہ مسنون ہے، وہ ہے ولیمہ۔ لیکن ولیمے سے پہلے مسجد میں نکاح کی سنّت ادا کرکے الگ سے شادی خانے میں سینکڑوں کی بارات جمع کرکے، لڑکی کے باپ کے خرچے پر ان تمام کی ضیافت کرواکر دلہن کو وداع کرواکر لانا یہ کس قوم کا چلن ہے؟ یہ نہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے، نہ انبیا ؑکا نہ صحابہؓ کا، نہ سلف صالحین ؒ کا۔ یہ طریقہ مشرکین کا ہے جس کو مہارانی جودھابائی جیسی راجپوت ہندو ملکاؤں نے اکبراعظم کے دربار میں متعارف کرواکر پوری امت کو اس میں غرق کردیا۔
سیتا جی کے جہیز کی طویل فہرست اور لارڈ شیوا اور پاروتی کی بارات کا تذکرہ انٹرنیٹ پر موجود ہے جسے گوگل کرنے سے بآسانی دستیاب ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کنیادان یعنی لڑکی کو خوب مال و متاع کے ساتھ رخصت کرنے، لڑکے والوں کو خوب کھانے کھلانے کے تذکرے بھی ہندو شاستروں میں ملتے ہیں۔ کیا یہودونصرٰی کی نقل حرام لیکن رام چندرجی اور سیتا جی کی نقل جائز ہے؟
پھر ہمارے وہ مولوی جو والنٹائن وغیرہ کے حرام ہونے پر فتوے دیتے ہیں،کس طرح ان شادی کی رسومات کو جائز کرتے ہیں؟ اگر یہ جائز نہیں کرتے تو پھر ایسی شادیوں میں شرکت کیوں کرتے ہیں؟ ایسی شادیوں میں شرکت کی اجازت کس بنیاد پر دیتے ہیں؟ وہ کھل کر یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ایسی غیر شرعی شادیوں میں جانا اور کھانا حلال ہے، فرض ہے، سنّت ہے، مباح ہے، افضل ہے یا حرام ہے، مکروہ ہے یا کیا ہے؟
غیرقوم کی نقل بہرحال حرام ہے، چاہے وہ یہودیوں کی نقل ہو، یا عیسائیوں کی یا مشرکین کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کو یہودیوں اور نصرانیوں کی نقل سے اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچ رہا ہے جتنا مشرکین کی نقل کی وجہ سے۔ مولوی کہتے ہیں کہ ویلنٹائین اور نیوایئیر جیسی بے ہودہ تقریبات کی وجہ سے زنا اور بے حیائی عام ہورہی ہے۔ بے شک یہ صحیح ہے لیکن یہ ویلنٹائین وغیرہ سال میں ایک بار منائی جاتی ہیں، جب کہ شادیاں سال کے 365 دن ہورہی ہیں، اور اِ ن مشرکانہ طرز کی شادیوں کی وجہ سے کتنا زنا پھیل رہا ہے، لوگوں کو اس کا اندازہ بالکل نہیں ہے۔
ویلنٹائین منانے والی قوم میں لڑکے لڑکیوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ Cladist کون مردود تھا، اس نے کیا بدکاری کی تھی۔ بس ایک روایت یا کلچر ہے جو وہ لوگ ہرسال مناتے ہیں۔ لیکن ہمارے مولوی 14 فروری آنے سے پہلے ہی یہ بتانا شروع کردیتے ہیں کہ کلاڈِسٹ کون تھا، اس نے کیا بدکاری کی تھی، یہ قصے فیس بُک، واٹس اپ، جمعہ کے خطبوں اور مضامین کی شکل میں اس قدر عام کئے جاتے ہیں کہ پہلی بار پڑھنے یا سننے والوں کو بھی مزہ آنے لگتا ہے۔ جن معصوم ذہنوں میں شہوت کا کبھی کوئی تصوّر بھی نہیں تھا، ان ذہنوں میں یہ ایک ہلچل پیدا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں ایسی چیزیں موبائیل پر ڈھونڈھنا شروع کردیتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کا زنا اور بے حیائی اور بدکاری سے جتنا گہرا تعلق ہے،اس سے کہیں زیادہ گہرا تعلق آج کی ہماری شادیوں کا زنا، ارتداد، بے حیائی اور آوارہ گردی سے ہے۔ جہیز اور بارات کے کھانوں کے بغیر 99% شادیاں نہیں ہوسکتیں۔ جب لڑکی والوں کو اتنا بوجھ اٹھانا ہی ہے تو وہ بھی لڑکوں میں شرافت یا کردار بعد میں دیکھتے ہیں۔ پہلے لڑکے کی تعلیم،کمائی اور گھر دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لہذا لڑکوں کو ایجوکیشن اور کمائی کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک تیس تیس سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
بالغ ہونے سے لے کر تیس سال تک کیا ہر نوجوان روزے اور نماز کے ذریعے صبر کرے گا؟ بالکل اسی طرح لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کے جنون نے لڑکیوں کو بھی برباد کرڈالا (گوکہ تعلیم کا سلسلہ تو زندگی بھر جاری رہتا ہے، لیکن اسے صرف پیشہ ورانہ طریقے سے اس طرح حاصل کرنا کہ فطری ضروریات کو خیرباد کہنا پڑے، قابل افسوس ہے)۔ اس طرح ان کی برابری کے لڑکے ملنے تک خود ان کی عمریں بھی تیس تیس سال تک پہنچ رہی ہیں۔ جب لڑکا قابل ہوجاتا ہے تو پھر اس کے ماں باپ تیس سال کی نہیں بلکہ صرف بیس بائیس سال کی لڑکی ڈھونڈھتے ہیں۔ لڑکیاں کیا کریں؟ اس لئے ایسے لڑکے لڑکیوں کے پاس سوائے ویلنٹائین اور نیوایئیر کے لطف کے کچھ اور نہیں رہ جاتا۔
اگر مولوی حضرات اس جہیز اور بارات کو سختی سے حرام قرار دے کر اس کا سر کچلتے تو لوگ لڑکوں میں ڈگری اور کمائی کے بجائے شرافت ڈھونڈھتے۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ جہیز کی ہوس میں لڑکے والے کسی بھی لڑکی کو اگربہو بنا کر نہیں لاتے، بلکہ لڑکیوں میں تعلیم یا نوکری سے پہلے سیرت ڈھونڈھتے تو نوجوان نہ تو جوانی برباد کرتے، نہ ویلنٹائین اور نیوایئیر پارٹیوں میں عیاشیاں کرتے، نہ رات رات بھر انٹرنیٹ دیکھ کر جنسی ہوس پوری کرنے پر مجبور ہوتے۔
اگر آپ کو ہماری بات کا یقین نہ آئے تو جاکر کسی بھی قریبی میٹرنیٹی ہوم میں ہونے والے ابورشنس کی تعداد دیکھئے، کسی بھی پاش محلے میں رہنے والے جوڑوں کو دیکھئے جو بغیر شادی کے Live-in relationship میں رہ رہے ہیں۔ کسی بھی ڈے کیر کِنڈرگارڈن یا اسکول میں جاکر دیکھئے وہاں کتنی Single parent عورتیں اپنے بچوں کو شریک کرواتی ہیں، یا کسی بھی Oyo جیسی ہوٹلوں میں جاکر دیکھئے وہاں عیاشی کے لئے کیسے کیسے گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں آتی ہیں۔
بڑی کمپنیوں میں جاکر دیکھئے کس طرح آپ کی تعلیم یافتہ لڑکیاں غیروں کے ساتھ گھل مل کر Assimilate ہورہی ہیں۔ کورٹ میں جاکر دیکھئے کتنی کورٹ میریجس ہورہی ہیں۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ یہ سب ویلنٹائین وغیرہ کی وجہ سے نہیں بلکہ شادیوں میں مشکلات کی وجہ سے ہورہا ہے۔
جب تک شادیوں میں مشرکین کی رسموں کی نقل کو اسی طرح حرام قرار نہیں دیا جائیگا جس طرح یہودونصرٰیٰ کی رسموں کوحرام قرار دیا جاتاہے، اُس وقت تک یہ زناکاریاں مسلمانوں میں سے ختم نہیں ہوسکتیں۔ علما نے مدرسوں کے فارغ ہونے والے ہزاروں لوگوں کو یہودیوں کی نقل کرنے اور ویلینٹائین منانے سے تو بچالیا، لیکن شادیوں میں مشرکین کی نقل کرنے سے نہ روک سکے۔ نتیجہ یہ کہ آج خود عالمہ اور حافظہ لڑکیاں بغیر جہیز اور بارات کے کھانے کے بیاہی نہیں جاسکتیں۔
کم سے کم اگر اتنا ہوتا کہ مدرسوں کے طلبا کی شادی میں ہندوؤں کی نقل نہ ہوتی، نہ کوئی جہیز ہوتا نہ کھانا نہ جوڑے کی رقم، تو ہر گریجویٹ لڑکی کا ماں باپ بھی اپنی بچی کو انہی مدرسے کے فارغین کو دینے کی خواہش کرتے۔ لیکن جب حافظ اور عالم خود ”ہمیں کچھ نہیں چاہئے لیکن جو لڑکی والے خوشی سے دے دیں وہ لے لو“کی چالاک پالیسی پر ایمان رکھتے ہیں تو جو نتائج ولینٹائن کے نکل رہے ہیں، وہی نتائج ان شادیوں کے بھی نکل رہے ہیں۔ ویلنٹائن یا نئے سال کی پارٹیوں سے تو صر ف چند لڑکے اور لڑکیاں برباد ہوتی ہیں۔ لیکن ان مشرکانہ شادی کی رسموں کی وجہ سے خاندان کے خاندان مالی طور پر اور اخلاقی طور پر برباد ہورہے ہیں۔
کاش کوئی ایک مسلک تو ایسا اٹھے جو خلافِ سنّت شادیوں کا اور ایسی شادیاں کرنے والوں کا بائیکاٹ کرے، انہیں قطعی حرام قرار دے۔ آج مولوی شراب کے خلاف تقریریں تو کرنا چاہتے ہیں لیکن پینے سے روکنا نہیں چاہتے۔ یعنی شادیوں میں فضول خرچیوں کے خلاف خوب وعظ و بیان کریں گے لیکن ایسی شادیوں میں شرکت کرنے کو جائز قرار دیں گے۔ جواز یہ پیش فرمائیں گے کہ اگر جہیز اور کھانا کوئی”خوشی سے“ دے رہا ہے تو جائز ہے۔
اگر ان حرام کاریوں کے جائز ہونے کی علّت ”خوشی سے“ ہے تو پھر کیا ویلنٹائن اور نیوایئیر منانے کے لئے کسی کے سر پر تلوار یا پستول رکھا جاتا ہے؟ ویلنٹائین، نیوایئیر، شراب، زنا، جوا، وغیرہ ساری حرام کاریاں ”خوشی سے“ ہی کی جاتی ہیں۔ لہذا شادیوں میں کنیادان، ورودکھشنا (جہیز)، اور مختلف رسمیں اگر ”خوشی سے“ کی بنیاد پر جائز ہیں تو پھر وہ ساری حرام کاریاں بھی جائز ہونی چاہئے جو ”خوشی سے“ ہی لوگ انجام دیتے ہیں۔
زیر نظر مضمون میں لکھے گئے پہلے پیراگراف کو دوبارہ پڑھیں، جس کو پڑھتے ہوئے آپ لکھنے والے کے ایمان پر شک کررہے تھے، اور خود اندازہ لگایئے کہ ہم نے طنزیہ یا مزاحیہ طور پر ویلنٹائین جیسے حرام کو جائز کرنے کے دلائل دیئے تھے کیا لفظ بہ لفظ وہی دلائل لوگ ان شادیوں میں ہونے والی حرام کاریوں کے جواز میں پیش نہیں کرتے؟ پہلا پیراگراف پڑھ کر ہمارے ایمان پر شک کرنے والوں کو ہمارے دلائل جو ظاہری طور پر ویلنٹائین کی تائید میں تھے، حرام لگے۔ لیکن جب لوگ یہی دلائل خلافِ شریعت تقریباتِ شادی کی تائید میں دیتے ہیں تو سب دلائل جائز ہوجاتے ہیں، ایسا کیوں؟
یہ جتنے لوگ ویلنٹائین ڈے کو یہودیوں کی نقل کہہ کر لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، ان کے گھروں کی شادیوں کو جاکر دیکھئے، تمام شادیاں مشرکین کی نقل ہیں۔ اِ ن کی شادیوں کے دعوت نامے پر جلی حروف میں ”النکاح من سنّتی، و من رغب عن سنتی فلیس منی“ لکھا ہوتا ہے یعنی یہ اعلان کہ یہ شادی رسول اللہ ﷺ کے طریقے پر ہورہی ہے، لیکن سوائے قاضی کے روبرو نکاح اور ولیمہ کے اعلان کے سب کچھ غیرمسلموں کی نقل ہے۔ کہیں شہر کے بڑے لوگوں، سیاستدانوں اور فلم اسٹاروں کی شادیوں کی نقل ہے، تو کہیں پوری شادی خاندان اور قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق ہوتی ہے۔ جو طریقہ باپ دادا کو یا مرشد کو پسند ہے، یا جس طریقے پر بڑے مذہبی رہنماؤں کے گھروں کی شادیاں لوگ دیکھتے ہیں، اب ان طریقوں پر چلنے کے لئے اس قدر شدّت پر اتر آتے ہیں کہ ان کے سامنے نہ قرآن کی دلیل دی جاسکتی ہے اور نہ حدیث کی۔
اگر مضمون کے طویل ہوجانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم وہ تمام آیتیں پیش کردیتے جو قرآن نے دین میں پورے کے پورے داخل ہوجانے اور کفارومشرکین کی نقل نہ کرنے کے تعلق سے بیان کی ہیں۔ آج ہندو معاشرہ بالخصوص نچلی ذاتیں جو 90% آبادی پر مشتمل ہیں، انہی شادیوں کے جہیز اور جوڑے اور کھانوں کی وجہ سے ہم سے کہیں زیادہ غربت و افلاس کے شکار ہیں۔ پوری زندگی کی کمائی بیٹیوں اور بہنوں کی شادی میں لٹ جاتی ہے۔ یہ پیسہ جو لڑکی کے بھائیوں کو تاجر بناسکتا ہے، ملک کی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے، فضول دعوتوں پر برباد ہورہا ہے۔
ہم شادیوں کو مکمل Sunnatise کردیں تو وہ لوگ صرف شادیوں میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں سنت کی نقل کریں گے، ان شاء اللہ۔ لیکن بدقسمتی سے ہم انہیں سنت کی نقل پر مجبور کرنے کے بجائے، ہم خود ان کی نقل پر اتر آئے، جس کے نتیجے میں خود ہماری معاشی اور اخلاقی حیثیت ان نچلی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئی۔
علماء و دانشوروں کو چاہئے کہ ویلنٹائین ڈے اور نیو ایئیر سے زیادہ شادیوں میں غیرمسلموں کی نقل کرنے کے نقصانات پر غور فرمائیں۔ یہ بھی اغیار کی نقل ہے، اور اس کی وجہ سے امت ویلنٹائن وغیرہ سے کہیں زیادہ برباد ہورہی ہے۔
جب ایسی شادیوں کی دعوت آئے جس میں اغیار کی نقل ہو یعنی منگنی، جہیز اور شادی کے دن کی بارات کا کھانا، تو ایسی شادیوں کے دعوت نامے کو ریجیکٹ کریں، لیکن عزت کے ساتھ۔ دعوت دینے والے سے ہمت کرکے کہیں کہ ”ہم معافی چاہتے ہیں، ہم شرکت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ شادی ہمارے نبیﷺ کے طریقے پرنہیں بلکہ ابو جہل اور ابو لہب کی نقل ہے۔ یہ اِس دور کے فاشسٹوں کی نقل ہے۔
آپ کے بائیکاٹ کرنے سے یقینا وہ شادی رکنے والی نہیں، لیکن آپ کا جملہ وہ شخص کئی لوگوں کو سنائے گا۔ لوگوں کی اکثریت آپ پر تنقید کرے گی، وہی دلائل پیش کرے گی جو پہلے پیراگراف میں ہم نے بیان کیے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ہوں گے جو نہ صرف آپ کی تائید کریں گے بلکہ ایسی شادیوں کے خلاف مہم چلانے کے لئے آپ کے مددگار بن جائیں گے۔ شادیوں کو مکمل سنت کے مطابق کروانے سے معاشرے میں ایک زبردست Economic revolution آئے گا۔ بہنوں اور بیٹیوں کی شادیوں میں سب کچھ لٹا کر جو لوگ آج مالی طور پر پریشان ہورہے ہیں، یہی لوگ کل تاجر، انڈسٹریلیسٹ، اور خوشحال بن جائیں گے۔ اُس کے بعد وہ کسی بھی تحریک یا جماعت کا بھرپور ساتھ دے سکیں گے۔
مضمون نگار سماجی کارکن اور سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد کے صدر ہیں