کسان تحریک کا حکومت کو پیغام: ” تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا”

شاہراوں پر خندقیں کھود کر، کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کرکے، خاردار تاراور سڑکوں پر نکیلی کیلیں لگا کر کیا کسانوں کی تحریک کو روکا جاسکتا ہے؟

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

26 جنوری کی شام جس کسان تحریک کو تقریباً ختم مان لیا گیا تھا، کسان رہنماؤں کے چہرے مرجھانے لگے تھے، ان کے حامیوں میں مایوسی پھیلنے لگی تھی، خود سرکار اور اس کے ’کارندوں‘ نے ہی بازی پلٹ دی۔ اب اسی تحریک میں پہلے سے زیادہ شدت محسوس کی جا رہی ہے۔ کسانوں کے عزائم اور حوصلے پہلے سے کہیں زیادہ بلند نظر آ رہے ہیں۔ وہیںحکومت کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس تحریک سے کیسے نمٹا جائے۔

اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ پچھلے تقریباً دوماہ سے جاری یہ کسان تحریک حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ نہ صرف مرکزی حکومت بلکہ ہریانہ اور یو پی سرکار کے لئے بھی یہ تحریک نیک شگون نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاجی کسانوں کو دباؤ میں لینے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ لیکن جتنا دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تحریک میں اتنی ہی شدت آتی جا رہی ہے۔

26 جنوری کا لال قلعہ واقعہ

26 جنوری کو لال قلعہ پر پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے بعد کسان لیڈران اور غیر جانب دار میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعہ جس طرح کے انکشافات کیے گئےاور جو الزامات لگائے گئے۔ ان سے حکومت کی منصوبہ بندی اور عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

لال قلعہ کے واقعہ اور دہلی کے مختلف علاقوں میں ہوئے تشدد کو کسی بھی طرح سے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ واقعی ایک قابل مذمت عمل تھا۔ لیکن ان واقعات کے پس منظر میں جن خداشت کا اظہار کیا گیا ہے، ان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

در اصل 26 جنوری کو ’میڈیا‘ کی بھرپور مدد سے شام تک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ جیسے کسان لیڈران نے ’ٹریکٹر پریڈ‘ کے بہانے لال قلعہ پر حملہ کر دیا ہے اور قومی پرچم کی دانستہ طور پر بے حرمتی کی ہے۔ انہی واقعات کی روشنی میں حکومت اور پولیس انتظامیہ انتہائی سخت موڈ میں نظر آئی اورکسانوں پر کریک ڈاؤن کی تیاری کر لی گئی۔

وہ تو بھلا ہو حکمراں طبقہ کا کہ جس نے پہلے سنگھو بارڈر اور پھر غازی پور بارڈر پر کسانوں کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے تحت ان پر یلغار کردی۔ حکومت کا یہ داؤ بظاہر اُلٹا پڑ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے بعد مغربی یو پی میں ایک بار پھر کسان سڑکوں پر آ گئے اور راکیش ٹکیت ان کے مسیحا بن گئے۔

پھر راکیش ٹکیت لیڈر بن گئے

دیکھتے ہی دیکھتے پورے مغربی یوپی میں کسانوں کی مہا پنچایتیں ہونے لگیں۔ مظفر نگر، متھرا، بجنور اور باغپت وغیرہ کی ان مہا پنچایتوں میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ شامل ہونے لگے۔ ایک آواز میں سب نے راکیش ٹکیت کو اپنا لیڈر مان لیا۔

اس مظفر نگر میں بھی ٹکیٹ لیڈر مان لیے گئے جہاں تقریباً سات سال پہلے سیاسی فصل کاٹنے کے لئے بی جے پی نے ہندو مسلم کے نام پر نفرت کا جو بیج بویا تھا، وہاں بھی مذہب اور ذات پات کو بھلا کر سب ایک پلیٹ فارم پر آ گئے۔

مرکز کے ساتھ ساتھ ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور یو پی کی حکومتیں تمام تر کوششوں کے باوجود کسانوں کے حوصلوں کو توڑ نہیں سکیں۔ نتیجتاً مختلف ریاستوں سے ایک بار پھر کسانوں نے بڑی تعداد میں دہلی کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اس بار انہیں احساس کرایا گیا کہ دہلی پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے، جتنا کہ چین کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں داخل ہونا۔ جب کسان دہلی کی سرحد پر پہنچے تو انہیں ایسا محسوں ہوا کہ وہ اپنے ملک کی راجدھانی میں نہیں، کسی دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہو رہے ہیں۔

خاردار تاراور نکیلی کیلوں سے تحریک روکنے کی کوشش

در اصل حکومت کو لگتا ہے کہ شاہراوں پر خندقیں کھود کر، کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کرکے، خاردار تاراور سڑکوں پر نکیلی کیلیں لگا کر کسانوں کی تحریک کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ حکومت کی غلط فہمی ہے۔

ایک جمہوری نظام میں انٹرنیٹ بند کرکے، میڈیا پر بندشیں لگا کر، سوشل میڈیاپر قدغن لگا کر یا غیر جانبدار صحافیوں کو ہراساں کرکے ان کی آواز کو کبھی دبایا نہیںجا سکتا۔اگر حکومت ایسا ہی چاہتی ہے تو بہتر ہوگا کہ ملک میں ایرجنسی کا اعلان کر دیا جائے۔ حکومت نے اپنے جابرانہ اقدامات سے کسانوں میں غم و غصہ تو پیدا کیا ہی ہے، ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کو بھی موقع دے دیا ہے۔

26 جنوری سے پہلے غازی پور بارڈر کا دھرنا کسان تحریک کا محض ایک حصہ تھا، لیکن راکیش ٹکیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد پوری کسان تحریک کا مرکز غازی پور بارڈر بن گیا اورسب کی نگاہیں راکیش ٹکیت پر مرکوز ہو گئیں۔

سیاسی جماعتوں کی حمایت

26 جنوری کے بعد غازی پور بارڈر پر بی جے پی کے علاوہ تقریباً سبھی پارٹیوں کے لیڈر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کی ایک لمبے عرصے تک حلیف رہی شیو سینا اور شرومنی اکالی دل کے لیڈران نے بھی راکیش ٹکیت سے ملاقات کی اور اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

راہل گاندھی نے بھی مرکزی حکومت پر طنز کیا۔ راہل گاندھی نے مظاہروں کی جگہ پر کی جا رہی ناکہ بندی کی تصویروں کو ٹوئیٹ کیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے لکھا، "حکومت ہند، دیواریں نہیں، پُل بنائے۔” ساتھ ہی حکومت جس طرح کسانوں کی تحریک سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے غم و غصہ اور بڑھ رہا ہے۔ وہ اس لئے کیونکہ کسانوں کے احتجاج کو مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مظاہرہ گاہوں کو قلعہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ان کے اطراف میں کئی سطحوں پر بیریکیڈنگ کی گئی ہے اورخاردار تاروں کو بچھادیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف غازی پور میں ہو رہا ہے، بلکہ سنگھو اور ٹکری بارڈر پر بھی ایسی ہی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔

سڑک پر سیمنٹ کی بڑی بڑی سلیب رکھی گئی ہیں اور اس میں بیرکیڈز کے ساتھ کیلیں لگائی گئی ہیں۔لیکن حکومت کو یاد نہیں کہ تقریباً دو ماہ قبل کسان اسی طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرکے دہلی کی سرحد پر پہنچے تھے۔

دو ماہ قبل جب کسانوں نے دہلی کوچ کیا تھا تو شدید سردی میں کسانوں پر پانی کی بوچھار کی گئی، لاٹھی چارج ہوا، آنسو گیس کے گولے داغے گئے، راستوں میں خندقیں کھودی گئیں، بڑی تعداد میں سلامتی دستوں کو تعینات کیا گیا، اس کے باوجود کسان اپنے عزائم پر قائم رہے اور آگے بڑھتے رہے۔آج بھی تمام تر پریشانیوں اور صعوبتوں کے بعد بھی وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

کسانوں کی آواز دبانے کی کوشش

ایسا نہیں ہے کہ صرف کسانوں پر پہرہ بٹھایا جا رہا ہے، بلکہ کسانوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کی آواز کو دبانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی جن علاقوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں، وہاں انٹر نیٹ بند کیا جا رہا ہے، غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے والے صحافیوں پر شکنجہ کسا جا رہا ہے، ان پر مقدمے ہو رہے ہیں، گرفتار کیا جا رہا ہے۔

کسانوں کی حمایت میں آوازاٹھانے اور حکومت کی تنقید کرنے والوں کے ٹوئٹر ہینڈلس کو بند کیا جا رہا ہے۔ اگر کہا جائے کہ آج ہم لوگ غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے دور میں ہیں، تو بیجا نہ ہوگا۔

یکم فروری کو دن میں ٹوئٹر نے اچانک تقریباً 250 اکاؤنٹس کو بند کر دیا، حالانکہ زبردست دباؤ کے بعد شام تک انہیں بحال کر دیا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دہلی بارڈر پر کسانوں کی تحریک میں شامل ہونے کے لئے پنجاب سے کسان جس ٹرین سے آرہے تھے، اس کو دوسری طرف موڑ دیا گیا۔

سوراج انڈیا کے رہنما یوگیندر یادو نے ٹوئٹ کیا کہ فیروز پور-ممبئی پنجاب میل کو روہتک سے ریواڑی کے راستے موڑ دیا گیا، تاکہ تقریباً ایک ہزار کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکا جاسکے۔

ان تمام حالات کو دیکھ کرکیا ایسا نہیں لگتا کہ اب ہندوستان فاشزم اور تاناشاہی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اگر چہ ہندوستان میں جمہوریت کی بنیادیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں کھودنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آج بھی ملک میں جمہوریت اور انصاف پسندوں کی اکثیرت موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ ملک میں فاشزم اپنے پیر جما چکا ہے اور وہ دھیرے دھیرے خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

مخالفین کی آواز دبانے کو اسی زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ لہذا وقت رہتے اگر اسے نہیں روکا گیا تو یہ ہمارے ملک کی تاریخ اور اقدار و روایات کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ پھر بھی حکمرانوں کوتاریخ پر نظر رکھنی چاہئے۔ بقول حبیب جالبؔ؎

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ

وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا

 

[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں | ای میل: yameen@inquilab.com]

ادارے کا مضمون نگار کے آراء و افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں