یوم جمہوریہ تشدد: حراست میں لئے گئے کسانوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد

دہلی ہائی کورٹ نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدد کے سلسلہ میں زیر حراست کسانوں سمیت تمام لوگوں کو رہائی کی مانگ کرنے والی ایک مفاد عامہ کی عرضی پر غور کرنے سے منگل کو منع کردیا۔

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدد کے سلسلہ میں 26 جنوری کو یا اس کے بعد سندھو بارڈر، ٹکری بارڈر اور غازی پور سرحد کے نزدیک ’غیرقانونی طریقہ سے‘ حراست میں لئے گئے کسانوں سمیت تمام لوگوں کو رہائی کی مانگ کرنے والی ایک مفاد عامہ کی عرضی پر غور کرنے سے منگل کو منع کردیا۔

یہ عرضی ایک لا گریجویٹ ایڈوکیٹ آشیما منڈلا اور منداکنی سنگھ کے ذریعہ دائر کی گئی تھی۔ عرضی میں الزام لگایا گیا کہ 26 جنوری کو قومی راجدھانی میں ٹریکٹر ریلی کے دوران بھڑکے تشدد کے بعد تقریبا 200 لوگ لاپتہ ہیں۔

جج ڈی این پٹیل کی صدارت والی بنچ نے عرضی گزار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ ’تشہیر سے جڑی عرضی‘ ہے اور اسے خارج کردیا۔ عدالت نے عرضی گزار کو پولیس کی غیر قانونی حراست میں ہونے کا دعوی کرنے والے تمام لوگوں کے کنبوں کی طرف سے حلف نامہ داخل کرانے کی ہدایت دی۔

عدالت نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ آج آپ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں حراست میں لیا گیا ہے اور کل ان کے کنبہ خود کو یہاں پیش کرتے ہیں اور کچھ دیگر دعوی کرتے ہیں۔

کسان سمیت تمام لوگوں کی گرفتاری غیر آئینی

عرضی میں کہا گیا ہے کہ کسان سمیت تمام لوگوں کی گرفتاری آئین کے آرٹیکل 14,21 اور 22 کی خلاف ورزی ہے۔ عرضی میں پولیس کی طرف سے لوگوں کو حراست میں لئے جانے کو ’غیرقانونی حراست‘ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہلی پولیس حراست کے دوران گرفتاری میمو پر دستخط کرنے جیسی ضابطے کی رسمی کارروائی پر عمل کرنے میں ناکام رہی جس کے مطابق کنبوں کو 8-12 گھنٹے کے اندر مطلع کرنا ہوتا ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے حراست میں لئے گئے شخص کو پیش کرنا ہوتا ہے۔

عرضی گزار نے 26 جنوری کے واقعات کے بعد لاپتہ ہوئے او ر حراست میں لئے گئے 15 لوگوں کے نام بھی دیے تھے۔ عرضی میں دلیل دی گئی کہ اس طرح کی حراست کے حق میں کوئی قانونی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔