وزیر اعلی پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا کہ لال قلعے میں کانگریس کا ایک بھی لیڈر یا کارکن نظر نہیں آیا۔ 26 جنوری کو ہونے والے اس واقعے کے لئے کسان بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ واقعہ سماج دشمن عناصر نے انجام دیا جنہوں نے ٹریکٹر ریلی میں دراندازی کرلی تھی۔
چندی گڑھ: وزیر اعلی پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا ہے کہ لال قلعہ میں نشان صاحب لہراتے وقت کیمرے میں قید ہوئے چہرے کانگریس کے نہیں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے ورکروں اور حامیوں کے ہیں۔
انہوں نے آج یہاں ایک بیان میں لال قلعہ پر تشدد کے واقعے کی ذمہ داری کسی دیگر پر ڈالنے کے لئے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اور عآپ حامیوں و کارکنان کی ملی بھگت سے یہ ہوا۔ کانگریس تو پورے معاملے میں کہیں بھی نہیں تھی۔
کیپٹن سنگھ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب دہلی پولیس نے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنی دیول کے قریبی دیپ سدھو کو تشدد کے بھڑکانے والوں میں سے ایک کے طور پر نشاندہی کی گئی ہے اور عآپ کا ممبر امریک مِکّی بھی تشدد کے مقام پر موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ لال قلعے میں کانگریس کا ایک بھی لیڈر یا کارکن نظر نہیں آیا۔ 26 جنوری کو ہونے والے اس واقعے کے لئے کسان بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہ واقعہ سماج دشمن عناصر نے انجام دیا جنہوں نے ٹریکٹر ریلی میں دراندازی کرلی تھی۔
مرکزی حکومت کو اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہیے
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کو اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ اس میں کسی بھی سیاسی پارٹی یا کسی ملک کے ممکنہ کردارکا پتہ لگایا جا سکے۔ قصورواروں کو سزا ملے اور اصل کاشتکاروں کو بے وجہ پریشان یا بدنام نہ کیا جائے۔
راہل گاندھی کو تشدد کے لئے بھڑکانے کے الزامات پر، وزیر اعلی نے کہا کہ یہ سب بی جے پی اور عآپ کے لوگ تھے جنہوں نے یہ سب کچھ کیا۔ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے واضح کیا تھا کہ تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مسٹر جاوڈیکر کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کیپٹن سنگھ نے کہا کہ ان میں کوئی صداقت نہیں ہے، بلکہ بی جے پی قائدین اپنی پارٹی کا ہاتھ ہونے کی وجہ سے ان کو چھپانے کے لئے یہ کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی صورتحال کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے جس نے سب سے پہلے زرعی قوانین کو اپنے من مانی طریقے سے نافذ کرکے ایسی صورتحال پیدا کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے جانے پر پابندی تھی تو پھر مرکزی حکومت کو کسانوں کو راستے میں روکنے کے لئے ہریانہ کے وزیر اعلی کو ہدایت دی جانی چاہیے تھی۔
انہوں نے مرکزی حکومت اور بی جے پی کو ضد چھوڑ کر زرعی قوانین منسوخ کرنے کامطالبہ کیا۔ اگر مرکزی حکومت دو سال کے لئے زرعی قوانین ملتوی کرسکتی ہے تو، ان کو آسان طریقے سے منسوخ کرکے کسانوں اور دیگر فریقوں سے مشورہ کرکے نئے قوانین کیوں نہیں لاسکتی۔