صرف 2 روپے سالانہ فیس پر سیکڑوں بچوں کو ٹیوشن دینے والے سوجیت چٹوپادھیائے کو حکومت ہند نے تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ’’پدم بھوشن‘‘ ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔
کلکتہ: بردوان ضلع کے ایک دیہی گاؤں میں صرف دو روپے سالانہ فیس پر بچوں کو ٹیوشن دینے والے سوجیت چٹو پادھیائے کو اس سال حکومت ہند نے تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز ’’پدم بھوشن‘‘ ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔ بردوان ضلع میں تو وہ پہلے سے ہی مشہور و معروف تھے مگر اب پدم بھوشن ایوارڈ کا اعلان ہونے کے بعد ان کی شہرت بردوان سے نکل کر ملک کے دوسرے شہروں اور نیوز چینلوں اور اخبارات کی سرخیوں تک میں پہنچ گیا ہے۔
سوجیت چٹو پادھیائے 15سال قبل سرکاری ٹیچر کے عہدہ سے ریٹائر ہوگئے تھے۔ مگر ملازمت سے سبکدوش ہونے کے باوجود انہوں نے تعلیم و تعلم کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ بردوان ضلع میں ایک سبجیکٹ کے ٹیوشن کی سالانہ فیس کم سے کم 2 ہزار روپے ہے۔ مگر سوجیت چٹو پادھیائے صرف دو روپے سالانہ کے معمولی فیس پر سیکڑوں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔
دو روپے فیس کیوں لیتے ہیں کے سوال پر سوجیت چٹوپادھیائے کا جواب
دو روپے فیس کیوں لیتے ہیں کے سوال پر سوجیت چٹو پادھیائے کہتے ہیں کہ یہ گرودکشنا کے طور پر فیس لی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر تعلیم مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب طالب علم دو روپے دیتا ہے تو وہ جھک کر آشیرواد لیتا ہے اور اس کی برکت سے وہ کامیاب ہوتا ہے اور ان بچوں کو احساس بھی ہوتا ہے کہ انہیں مفت میں تعلیم نہیں دی گئی ہے۔
سوجیت چٹو پادھیائے مشرقی بردوان ضلع کے آش گرام جوبیر بھوم ضلع سے متصل ہے کے شمالی رام نگر گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک کچے مکان میں رہتے ہیں۔ اس گاؤں سے کافی دوری پر اسکول واقع ہے۔ سوجیت چٹو پادھیائے کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے رام نگر جونیئر ہائی اسکول میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد بولپور کے باندھ گڑھ ہائی اسکول سے ہائر سیکنڈری پاس کی۔ بردوان راج کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد، انہوں نے بردوان یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا۔ جلپائی گوڑی سے بی ٹی پاس کی اور اپنے کیریئر کا آغاز 1985 میں 22 سال کی عمر میں کیا۔ رام نگر ہائی اسکول میں درس و تدریس کا آغاز ہوا۔ یہ گاؤں جو نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین کے آبائی گاؤں کے قریب ہے۔ تقریبا چالیس سال تک خدمت انجام دینے کے بعد 2004 میں ریٹائرڈ ہوگئے۔
دوران تدریس بھی غریب بچوں کو مفت میں ٹیوشن دیتے تھے
علاقے میں کم آمدنی والے خاندانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جس وقت سوجیت چٹو پادھیائے تدریس سے جڑے ہوئے تھے اس وقت بھی وہ اپنے گاؤں اور آس پاس کے غریب بچوں کو مفت میں ٹیوشن دیتے تھے۔ اسکول کے ایک کمرے میں وہ چھٹی کے بعد معاشی طور پر کمزور بچے جو ٹیوشن نہیں پڑھ سکتے ہیں کو ٹیوشن دیا کرتے تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انہو ں نے اسکول انتظامیہ سے درخواست دی کہ انہیں بغیر تنخواہ کے پڑھانے اور اسکول کی چھٹی کے بعد بچوں کو ٹیوشن دینے کی اجازت دی جائے۔ اسکول انتظامیہ نے اس درخواست کو منظور کرلیا۔
سوجیت چٹو پادھیائے نے فون پر بتایا کہ آس پاس کے گاؤں کے بچے ان کے یہاں ٹیوشن پڑھنے کے لئے آتے ہیں تو جب میں ان بچوں سے فیس سے متعلق بات کرتا ہوں تو ان کے چہرے کے رنگ فک ہو جاتے تھے مگر جب میں انہیں بتاتا انہیں بس سال کے اخیر میں امتحان سے قبل دو روپے فیس دینے ہوں گے ان بچوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے۔
اتنی کم فیس لینے سے متعلق وہ کہتے ہیں ایک ایک طالب علم کو تین سے چار ٹیوشن لینے پڑتے ہیں۔ ان میں بہت سے غریب والدین ہیں جو اس کو خرچ کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔ ٹیوشن کے علاوہ دوسرے اخراجات بھی ہیں۔ اگر میں دوسروں کی طرح ٹیوشن فیس لیتا ہوں تو وہ مشکل میں آجائیں گے۔ شاید بہت سے بچے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیں گے۔ میرے لئے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ کی چمک ہزاروں روپے لینے سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور یہی میری فیس ہے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ سکوں۔