ارنب گوسوامی وہاٹس ایپ چیٹ لیک معاملہ پلوامہ اور بالا کوٹ جیسے حساس معاملوں سے وابستہ ہونے کے باوجود سیاسی گلیاروں میں خاموشی کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔ نہ مین اسٹریم میڈیا میں کوئی چرچہ یا مباحثہ اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی ایسا رد عمل کہ اس پر کارروائی کا دباؤ بن سکے
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
تصور کیجئے کسی شخص کی وہاٹس ایپ پر ہوئی گفتگو ( چیٹ) لیک ہو جائے۔ اور اس گفتگو میں وزیر اعظم دفتر ( پی ایم او) کا ذکر ہو، ’اے ایس‘ کا ذکر ہو، وزارت اطلاعات و نشریات کا ذکر ہو، این ایس اے کی بات ہو اور سب سے بڑھ کر پلوامہ حملے اور پھر پاک مقبوضہ علاقہ میں سرجیکل اسٹرائک پر گفتگو کی گئی ہو۔ اس کے باوجود نہ کہیں کسی کارروائی کا ذکر، نہ مین اسٹریم میڈیا میں کوئی چرچہ یا مباحثہ اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی ایسا رد عمل کہ اس پر کارروائی کا دباؤ بن سکے۔
کسی عدالت کا از خود نوٹس لینے یا پوچھ گچھ کی تو کیا ہی بات کی جائے، جب سپریم کورٹ ہی اُس شخص کو ترجیحات کی بنیاد پر ضمانت دے دیتی ہے۔ در اصل ممبئی پولیس نے بدنام زمانہ اینکر اور ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کے خلاف ٹی آر پی گھپلہ معاملے میں ایک چارج شیٹ داخل کی ہے۔ اس میں ٹی آر پی کیس کے کلیدی ملزم اور ’براڈکاسٹ آڈیئنس ریسرچ کونسل‘ (بارک) کے سابق سی ای او پارتھو داس گپتا کے ساتھ وہاٹس ایپ پر ہونے والی ارنب کی بات چیت ( چیٹنگ) کے منظر عام پر آنے کے بعد سنسنی پھیل گئی ہے۔
میڈیا اس معاملے کو اُتنی اہمیت نہیں دے رہاہے جتنا یہ سنگین ہے
حالانکہ یہ سنسنی حساس اور سنجیدہ طبقوں میں ہی ہے عام نہیں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ اس معاملے کو اُتنی اہمیت نہیں دے رہاہے، جتنا سنگین یہ معاملہ ہے۔ ہاں، جو بھی رد عمل اور کارروائی کادباؤ بنایا گیا ہے، وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی بنا ہے۔ خاص طور پر ٹوئیٹر پر اس معاملے کو کافی زور وشور سے اٹھایا گیا ہے اور پچھلے کئی دنوں سے وہاں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس کے بعد ہی اپوزیشن کانگریس نے اس پر نوٹس لیا اوربیان جاری کیا۔
ارنب گوسوامی کے وہاٹس ایپ چیٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی اہم سوالات پیدا ہوگئے ہیں، جن کی بنیاد پر کانگریس اور اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں نے اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کی مانگ کی ہے۔
وہاٹس ایپ چیٹ کا معاملہ ہے تو بہت سنگین، لیکن ایک ’راشٹروادی‘ اینکر کی وجہ سے اس کی سنگینی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ حالانکہ اس معاملے میں صرف ارنب گوسوامی ہی نہیں، بلکہ مرکزی حکومت اور کئی اہم ادارے بھی کٹہرے میں کھڑے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کیوں کہ یہ سیدھا ملک کی سلامتی سے تعلق رکھتا ہے۔
پلوامہ اور بالا کوٹ ایئر اسٹرائک کا ذکر بے حد سنسی خیز
پانچ سو صفحات پر مشتمل وہاٹس ایپ کی اس بات چیت میں جو سب سے سنسنی خیز اور سنگین معاملہ ہے وہ پلوامہ حملے اور بالا کوٹ ایئر اسٹرائک کا ذکر ہے۔ اسی لئے یہ سنگین سوال پوچھا جارہاہے کہ ارنب گوسوامی کو بالاکوٹ اور پٹھان کوٹ حملوں کی اطلاع پہلے سے کیسے تھی؟ کیوں کہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ بات چیت سرجیکل اسٹرائیک سے تین دن پہلے کی گئی تھی۔
اس وائرل وہاٹس ایپ چیٹ میں داس گپتا سے ارنب کہتے ہیں کہ کچھ ’بڑا‘ ہونے والا ہے۔ جس کے بعد جب ان سے کہا گیا کہ کیا وہ داؤد کے حوالے سے ہے، تو ارنب جواب دیتے ہیں ‘نہیں سر، پاکستان۔ اس مرتبہ کچھ اہم ہونے جا رہا ہے۔ داس گپتا اگلے جواب میں جب حملے کا ذکر کرتے ہیں تو ارنب کہتے ہیں ’نارمل اسٹرائیک سے بڑی اسٹرائیک ہونے والی ہے اور اسی وقت کشمیر میں بھی کچھ اہم ہو گا۔‘قابل ذکر ہے کہ۱۴؍ فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، جس میں سی آر پی ایف کے۴۰؍ جوان شہید ہو گئے تھے۔
ہندوستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے بالا کوٹ میں سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے پلوامہ حملے اورسرجیکل اسٹرائیک دونوں پر سوالات اٹھائے تھے اور اسے مارچ میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ارنب اور پارتھو داس گپتاکے درمیان ہونے والی یہ بات چیت ٹی آر پی کیس میں ممبئی پولیس کی اضافی چارج شیٹ کا حصہ ہے۔
بی جے پی لیڈران کی خاموشی معنی خیز
اس پورے معاملے پر بی جے پی میں خاموشی طاری ہے۔ آخر ہو بھی کیوں نہ، دن رات بی جے پی اور سرکار کی ترجمانی کرنے والے ری پبلک چینل کے ایڈیٹر ان چیف کا معاملہ جو ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب ممبئی پولیس نے ارنب گوسوامی کو ایک مجرمانہ کیس میں گرفتار کیا تھا تو چھوٹے موٹے بی جے پی لیڈران کی کیا بات کی جائے۔
وزیر داخلہ سے لے کر وزیر خارجہ ور وزیر اطلاعات و نشریات نے ارنب کی گرفتاری کی مذمت کی تھی اور ٹوئیٹ کرکے اسے صحافتی اصولوں اور اظہار رائے کی آزادی پر حملہ بتایا تھا۔ لیکن پلوامہ اور بالا کوٹ جیسے حساس معاملوں پر بی جے پی قیادت کی خاموشی واقعی کئی سوالات کھڑے کرتی ہے۔ یعنی ارنب کا معاملہ جتنا سنسنی خیز ہے، اتنا ہی بی جے پی لیڈران کی خاموشی معنی خیز کہی جا سکتی ہے۔
آپ صرف سوچ کر دیکھئے کہ اگر ارنب گوسوامی کی جگہ ہم آپ جیسا کوئی معمولی انسان ہوتا، کوئی غیر جانب دار یا صحافتی اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرنے والا کوئی اینکر ہوتا، یا پھر ’درباری‘ نہ ہو کریا گودی میڈیا سے باہر کا کوئی صحافی ہوتا تو آج ہر طرف کیا اسی طرح کی خاموشی اور سناٹا دیکھنے کو ملتا؟ اسی لئے تو سوچتا ہے بھارت۔
ارنب معاملہ پر رویش کمار کی بے باک تحریر
راقم کے اس سوال کا جواب آج بھی صحافتی اصولوں کو زندہ رکھنے والے مشہور صحافی رویش کمار کی ایک تحریر میں ملتا ہے۔ رویش کمارکو لکھنا پڑا کہ اگر ارنب گوسوامی کی جگہ وہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
وہ لکھتے ہیں ’’آپ کس سے توقع کر رہے ہیں؟ ہندوستان کا۹۹؍ اعشاریہ ۹۹۹؍ فیصد میڈیا ’گودی میڈیا‘ ہے۔ یہ ایک پریوار کی طرح کام کرتا ہے۔ آپ اس پریوار کے محافظ اور سرپرست کا نام جانتے ہیں۔ اس فیملی کے تمام اینکر اور چینلوں کے مالک ارنب ہی ہیں۔ سب کے نام الگ ہیں، لیکن کام ارنب کا ہی ہے۔ تو کوئی کیسے اپنے ارنب ہونے کے خلاف ارنب کی پول کھول دے۔
ارنب صرف ایک نیوز اینکر نہیں ہے۔ وہ ایک سماج ہے۔ ارنب کے جھوٹ کو دیکھنے اور دن رات اسے برداشت کرنے والا سماج ارنب بن چکا ہے۔ اس سماج کی سوچ میں ارنب اور ارنب کے محافظ کے فرق کی سرحد ختم ہو چکی ہے۔ اس کے محافظ اور سرپرست ہی ارنب ہے اور ارنب ہی محافظ ہے۔‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اگر میرے بارے میں ایسی کوئی اطلاع ہوتی تو ارنب سمیت سبھی ارنب اس پر گھنٹوں مہم چلا رہے ہوتے۔ سارے وزیر پولیس کے ساتھ میرے گھر آ گئے ہوتے۔ افسر نوٹس جاری کر رہے ہوتے۔ کیوں کہ میں ارنب نہیں ہوں۔‘‘ رویش کمار کے ان الفاظ پر غور کریں تو بہت کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔
پاکستانی رد عمل
ارنب گوسوامی اور بارک کے سی ای او کی وہاٹس ایپ کی گفتگو کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ معاملہ سامنے آنے کے بعد پاکستانی میڈیا اور وہاں کی حکومت بھی سرگرم ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مذکورہ گفتگو سے ہندوستانی میڈیا اور مودی سرکار کا گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’انتخابات جیتنے کے لیے خطرناک فوجی مہم جوئی خطے کوغیر مستحکم کرنے کا باعث بنی۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی ایڈونچر پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر سکتا تھا۔’
خیر، یہ تو ہمارے دشمن ملک کی بات ہو گئی۔ لیکن کیا واقعی یہ معاملہ اتنا غیر اہم ہے کہ نہ سرکار، نہ عدالت اور نہ ہی میڈیا کا بڑا طبقہ اس پر کوئی توجہ دے رہا ہے۔ اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو یہ ملک کے مستقبل کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
حالانکہ مختلف ہائی کورٹس نے ابھی امید کی لو جلا رکھی ہے۔ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی موت سے متعلق معاملے میں ممبئی پولیس کی شبیہ خراب کرنے والے ریپبلک ٹی وی اور ٹائمز ناؤ کی کوریج کو بامبے ہائی کورٹ نے بادی النظر میں توہین آمیز قرار دیا۔
میڈیا ٹرائل کیس کی سماعت کے دوران، بمبئے ہائی کورٹ نے کہا کہ میڈیا میں اب انتہائی درجہ کی صف بندی ہوگئی ہے، ماضی میں صحافی حضرات ذمہ دار اور غیر جانبدار ہوا کرتے تھے۔
اس کےعلاوہ نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن ( این بی اے) نے ارنب اور داس گپتا کی بات چیت پرسخت غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ چار برسوں میں این بی اے کی جانب سے ریٹنگ کے حوالے سے عائدالزامات کی اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ ایک غیر این اے بی رکن نے ’بارک‘ کی اعلیٰ انتظامیہ سے مل کر ریٹنگ میں ہیرا پھیری کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ ادارے کیا واقعی ارنب جیسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے۔
[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں | ای میل: yameen@inquilab.com]
ادارے کا مضمون نگار کے آراء و افکار سے متفق ہونا ضروری نہیں