انڈین یونین مسلم لیگ کے اے ایم محمد ابوبکر ایم ایل اے نے اقلیتی برادری کے مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلائی گئی میٹنگ میں شرکت کی اور انڈین یونین مسلم لیگ کی جانب سے مندرجہ ذیل مطالبات پر مشتمل ایک عرضداشت سونپا۔
چنئی: گورنمنٹ گیسٹ ہاؤس، چیپاک، چنئی میں قومی اقلیتی کمیشن کے ساتھ اقلیتی برادری کے مسائل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلائی گئی میٹنگ میں انڈین یونین مسلم لیگ کے اے ایم محمد ابوبکر ایم ایل اے نے شرکت کی اور انڈین یونین مسلم لیگ کی جانب سے مندرجہ ذیل مطالبات پر مشتمل ایک عرضداشت سونپا۔
حکومت ہند کی طرف سے اقلیتوں کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کے 15نکاتی منصوبے کمیونٹی تک پہنچ نہیں پارہے ہیں۔ پہلے کی طرح اسے تشہیر کرکے اس منصوبے کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ اقلیتی برادری کے طلباء کو اسکالرشپ تک رسائی حاصل کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ خاص کر اسکولوں کے ذریعہ اسکالرشپ کے لیے درخواست دینے کے عمل کی وجہ سے طلباء اسکالر شپ سے محروم ہورہے ہیں۔ لہذا، اسلامی برادری کے فطری ڈھانچہ یعنی محلہ جماعت کے ذریعہ بھیجے جانے والے تعلیمی درخواست فارم کو حکومت قبول کرے۔ اس سے مسلم طلبہ کو سرکاری اسکالرشپ حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔
جسٹس رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارش کی بنیاد پر مرکزی او ر ریاستی حکومتوں کی طرف سے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 10فیصد ریزرویشن فراہم کیاجائے۔
جیسا کہ وزیر اعظم کے 15نکاتی منصوبے میں ذکر کیا گیا ہے، ان اضلاع میں جہاں اقلیتوں کی آبادی زیادہ ہے ان اضلاع میں سرکاری منصوبوں کو نافذ کرنے کے لیے اقلیتی برادری کے درمیان بیداری مہم چلائی جائے۔ اس کے علاوہ، جب اس منصوبے کے جائزہ اجلاس ریاستی وضلعی سطح پر ہوتے ہیں تو ان اجلاس میں اقلیتی برادری کے اراکین پارلیمان، اراکین اسمبلی اور بلدیہ کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائے۔
منصوبے میں اردو زبان کی ترقی پر توجہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔لیکن تمل ناڈو میں اردو اکیڈمی گزشتہ ساڑھے نو سالوں سے غیر فعال ہے اور ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں اس سلسلے میں مناسب کارروائی کریں۔
پولیس تھانوں میں متعدد حکام کی سفارش کے مطابق بعض مخصوص برادریوں کے ساتھ ہونے والے ناانصافی کو روکنے کے لیے اقلیتی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو اسسٹنٹ انسپکٹر آف پولیس کے عہدے پر مقرر کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان میں مقبوضہ وقف جائیداد کی بازیابی کرکے وقف جائیدا د کا تحفظ کرکے مسلمانوں کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کے لیے اقدامات اٹھایا جانا چاہیے۔
مرکزی حکومت کی آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ماتحت جو (مندروں، گرجاگھروں اور مساجد) بند پڑے ہیں انہیں کو دوبارہ کھولنے اور اس میں عبادت کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو مناسب اقدامات کرنا چاہیے۔
ورشیپ پلیس اسپیشل ایکٹ1991کے حوالے سے مرکزی حکومت کو تمام ریاستوں کو ایک سرکولر جاری کرنا چاہیے۔ تب ہی تمام عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے اور زہر افشانی کو ختم کیا جاسکتا ہے اور مذہبی ہم آہنگی بحال کیا جاسکتا ہے۔
معیشت میں تمام لوگوں کی ترقی کے لیے ہندوستان میں بلاسودی بینک کاری کو متعارف کرایا جائے۔
ہندوستان جس کو دنیا کی سب سے بڑ ی جمہوریت کی حیثیت سے سراہا جاتا ہے، تمام برادریوں کو اسمبلی اور پارلیمنٹ میں مناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔ نچلے سطح سے جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لیے ہندوستان میں متناسب نمائندگی انتخابی نظام لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔
تمل ناڈو میں مسلم قیدیوں کو بار بار حکومت کے ذریعہ خصوصی ادوار کے دوران اعلان کردہ عمر قید سزا یافتہ قیدیوں کو رہائی سے انکار کیا گیا ہے۔ آئین ہند کی دفعہ 161کے تحت ریاست تمل ناڈو کے گورنر کو حاصل اختیار کے مطابق تمل ناڈو حکومت ہی سفارش کرکے قیدیوں کو رہا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اس کے مطابق،وہ تمام افراد بلا تفریق نسل، مذہب یا مقدمہ جو 14سال سے زیادہ عرصہ جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں انہیں ہمدردی کی بنیاد پر رہا کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح تمل ناڈو کے جیلوں میں 47مسلم عمر قیدیوں کو بھی بلا امتیاز رہا کیا جانا چاہیے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جمہوری طریقے سے لڑنے والوں کے خلاف درج ایف آئی آر کو واپس لیا جائے۔
لو جہاد اور گؤ رکشا کے نام پراقلیتی برادری پر بھیڑ تشدد کے وحشیانہ منصوبہ بند حملوں کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔
ہندوستان کے انتھروپولوجیکل سروے کے مطابق ہندوستان میں 4924 کمیونیٹیز آباد ہیں۔ ہندوستان میں تمام برادریوں کی انفرادیت،ثقافت اور وقار کو برقرار رکھنے سے ہی دنیا میں ہم ہندوستانیوں کا وقار قائم رہ سکتا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ نفرت بھڑکانے والے، ذات پات اور مذہبی منافرت پھیلانے سے روکنے اور اقلیتوں کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بناکر اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
[پریس ریلیز]