دہلی کی ہوا پاکستان اور افغانستان کی ’زہریلی ہوا‘ کے سبب مزید خراب

فضائی آلودگی کا بحران شدت اختیار کر گیا: سرحد...

این ایچ آر سی کے پروگرام کا اختتام، آٹھ ممالک کے 33 نمائندگان ہوئے شامل

جنوبی نصف کرے کے ترقی پذیر ممالک کے انسانی...

جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب: انڈیا اتحاد کی حکومت بننے کا دعویٰ، ملکارجن کھڑگے کا بیان

جھارکھنڈ انتخابات میں ملکارجن کھڑگے کا دعویٰ، انڈیا اتحاد...

اسدالدین اویسی کی پھرپھرا شریف کے پیرزادہ سے ملاقات کے ساتھ مغربی بنگال میں نئی سیاسی تحریک کا اغاز

مغربی بنگال میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کو بہار کے اختر الایمان جیسے کسی مضبوط سیاسی رہنما کی تلاش ہے۔ پھرپھرا شریف کے مولانا عباس صدیقی سے اویسی کی ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جا رہی ہے۔ اس پر ترنمول کانگریس نے اپنا وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے مجلس کو بے جی پی کی بی ٹیم قرار دیا

کولکاتا: کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اتوار کے روز مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات سے قبل ہگلی ضلع کے جنگی پورہ علاقے میں واقع پھرپھرا شریف کے بااثرعالم دین پیرزادہ عباس صدیقی سے ملاقات کی جس سے ریاست میں ایک نئی سیاسی تحریک پر قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں۔

گذشتہ مارچ میں صدیقی نے ایک سیاسی تنظیم شروع کرنے اور اسمبلی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، تب سے اب تک سمت میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

صدیقی کے ساتھ بات چیت کے بعد اسد الدین اویسی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”ہم مولانا عباس صدیقی کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں کہ انتخاب ایک ساتھ لڑنا ہے یا اپنے طور پر۔ لیکن وہ ہم سے بڑے ہیں اور ہم یہاں مل کر کام کرنا چاہیں گے۔

دریں اثنا، پھرپھرا شریف ہی کے ایک دوسرے عالم دین پیرزادہ طحی صدیقی نے کہا کہ ‘اب تک ہم نے ریاست میں ترقی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ چاہے ووٹ کانگریس، سی پی ایم کے حق میں دئے ہوں یا ترنمول کانگریس کے لئے، سبھی کو ترقی کے نام پر ووٹ دیا گیا ہے۔ اس بار ہم فرقہ واریت کے خلاف ووٹ دیں گے۔ ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں اور ہم اس ہم آہنگی کے تحفظ کے لئے ووٹ کریں گے۔” انہوں نے کہا: "مسلم طبقہ ریاست کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں فرقہ واریت کے خلاف ووٹ ڈالے گی۔”

مجلس کے سربراہ جناب اویسی نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ ان کی پارٹی مغربی بنگال میں آئندہ اسمبلی انتخابات لڑے گی۔ ترنمول کانگریس نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ بی جے پی کی مدد کے لئے اقلیتی ووٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پارٹی نے بہار اسمبلی کے نتائج کی نشاندہی کی تھی جہاں مشرقی بہار میں اے آئی ایم آئی ایم  () کی کارکردگی سے مہاگبتبندھن اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اور اس طرح مجلس کے انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے "بی جے پی کی مدد” کی مدد ہوئی تھی۔

ترنمول کانگریس نے جب مجلس کو بے جی پی کی بی ٹیم قرار دیا تواویسی نے سخت لفظوں میں سوال کیا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے یہاں 18 سیٹیں کیسے جیت گئی، اور آخر کیوں ترنمول کے ممبران پارٹی چھوڑکر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ مغربی بنگال کے عام غیر بی جے پر ووٹرز جہاں سیکولر ووٹ کے ممکنہ بکھراؤ سے گھبرائے ہوئے ہیں وہیں دلتوں اور آدیباسیوں سے بھی خراب حالت میں زندگی گزار رہے مسلمان اب ایسی قیادت کی راہ دیھ رہے ہیں جو ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے۔

اسدالدین اویسی نے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) پلٹ وار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے مغربی بنگال میں بی جے پی کو بڑھاوا دیا ہے۔ ترنمول کانگریس نے اویسی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے غیر بی جے پی جماعتوں کا وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ یہ "بی جے پی کی بی ٹیم” ہے ۔

اس پر اویسی نے اتوار کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہم ایک سیاسی جماعت ہیں۔ ہم یہاں اپنی موجودگی درج کرنے اور اسمبلی انتخابات لڑنے آئے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ "جب گجرات جل رہا تھا تو ممتا بنرجی کہاں تھیں؟ ہم نے 2019 میں لوک سبھا انتخابات نہیں لڑا۔ پھر بنگال میں بی جے پی نے 18 سیٹیں کیسے جیت گئی؟ کیا ٹی ایم سی نے ان کے ساتھ سمجھوتہ کر رکھا تھا؟”

اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ کہ "ہم نے بہار اسمبلی انتخابات میں 20 نشستیں لڑی تھیں۔ ان میں سے ہم نے پانچ میں کامیابی حاصل کی، کانگریس کے مہاگٹھ بندھن اور آر جے ڈی نے نو میں کامیابی حاصل کی اور بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے چھ حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ اویسی نے مزید کہا کہ ہمارے خلاف یہ الزام کہ ہم بی جے پی کی بی ٹیم ہیں بے بنیاد اور غلط ہے۔

ترنمول کانگریس سے پارٹی رہنماؤں کے حالیہ انحراف کا ذکر کرتے ہوئے مجلس کے سربراہ نے کہا کہ "ترنمول کانگریس کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور یہ معلوم کرنا چاہئے کہ وہ مغربی بنگال میں بی جے پی کو کیوں نہیں روک سکتی۔ پارٹی کو تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس کے ممبران پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں کیوں جا رہے ہیں۔”

اسد الدین اویسی نے ایک سلسہ وار ٹویٹ میں کہا کہ "بنگال حضرت پیر صوفی ابوبکر صدیق رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم تاریخی سرزمین ہے، میں یہاں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے آیا ہوں، پھرپھرا شریف کے  اولیا اللہ اور بزرگان دین کی دعاؤں سے مجلس نے بنگال میں اپنا کام شروع کردیا ہے۔

ٹی ایم سی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ سوگتا رائے نے کہا: اویسی بخوبی واقف ہیں کہ بنگال میں مسلمان زیادہ تر بنگالی بولنے والے ہیں، اردو بولنے والے نہیں۔ لہذا وہ اس کی پارٹی کی حمایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عباس صدیقی سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ بنگال میں مسلمان ممتا بنرجی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

دریں اثنا ”مغربی بنگال کے بی جے پی صدر دلیپ گھوش نے کہا کہ انہیں اویسی اور ان کی پارٹیکی  ریاست میں سیاسی جگہ بنانے کی کوششوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہے کہ کون الیکشن لڑہا ہے کون نہیں۔ ہمارا نعرہ ہے "سب کا ساتھ، سب کا وکاس’۔ جو لوگ مسلمانوں کی خوشامدی میں مصروف ہیں وہ خوف زدہ ہیں۔ جمہوریت میں کوئی بھی الیکشن لڑ سکتا ہے۔”

اسدالدین اویسی کی پھرپھرا شریف کے عالم دین پیرزادہ عباس صدیقی سے ملاقات کو اسمبلی انتخابات سے قبل مغربی بنگال میں مسلم اکثریتی حلقوں میں ایک سیاسی محاذ بنانے کی کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چونکہ ہمسایہ بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اچھا مظاہرہ رہا جس کے بعد مغربی بنگال میں پارٹی کا انتخابی آغاز ہوگا۔ اس لئے مجلس ہندی یا اردو بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی کل آبادی 30 فی صد ہے جن میں سے 24 فیصد بنگالی بولتی ہے۔