’یوم پھٹکار‘ حکومت کی بے حسی اور کسانوں کے گذشتہ سات ماہ کے احتجاج اور سردی میں دہلی کے ایک مہینے کے دھرنے کے باوجود مطالبات نہ ماننے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ حکومت کسانوں کے ’تین زرعی قوانین‘ اور ’بجلی بل 2020‘ کو منسوخ کرنے کے مطالبے کو حل نہیں کرنا چاہتی۔
نئی دہلی: بھارتیہ کسان سنگھرش سمنویہ سمیتی (اے آئی کے ایس سی سی) نے اپنی سبھی اکائیوں سے 26 دسمبر کو جب دہلی کے خلاف احتجاج کا ایک ماہ مکمل ہورہا ہے ’یوم پھٹکار‘ اور ’امبانی و اڈانی کی سروسز اور مصنوعات کے بائیکاٹ‘ کی شکل میں کارپوریٹ یوم احتجاج منانے کی اپیل کی۔
’یوم پھٹکار‘ حکومت کی بے حسی اور کسانوں کے گذشتہ سات ماہ کے احتجاج اور سردی میں دہلی کے ایک مہینے کے دھرنے کے باوجود مطالبات نہ ماننے کیلئے کیا جا رہاہے۔ تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ حکومت کسانوں کے ’تین زرعی قوانین‘ اور ’بجلی بل 2020‘ کو منسوخ کرنے کے مطالبے کو حل نہیں کرنا چاہتی۔
کسان قائدین قانون واپس کروا کر ہی اپنے گھروں کو واپس جائیں گے
آئی کے ایس سی سی ورکنگ گروپ نے کہا کہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ کھلے دل اور ہمدردی کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔ اس کا دماغ مکمل طور پر بند ہے اور وہ قوانین میں کچھ اصلاحات پر قائم ہے۔ وہ ملک کے عوام کو دھوکہ اور کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔ اس کا منصوبہ ہے کہ یہ ظاہر کرکے کہ کسان مذاکرات کیلئے نہیں آرہے ہیں، وہ کسانوں کے حوصلہ کو توڑ دے یہ تحریک ناکام ہوجائے گی۔ ورکنگ گروپ کا کہنا ہے کہ کسان قائدین نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ انہیں کوئی جلدی نہیں ہے اور وہ قانون واپس کروا کر ہی اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔
24 دسمبر کو حکومتی خط میں 3 دسمبر کی بات چیت میں نشانزد ایشوز کا بار بار حوالہ دیاگیا ہے، جن کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ایشوز کو حل کردیا ہے اور وہ ’دوسرے ایشوز‘ کی مانگ کررہے ہیں جن پر کسان گفت و شنید کرناچاہتے ہیں۔
اے آئی کے ایس سی سی نے کہا ہے کہ کسان یونینوں کے جواب میں، انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ حکومت نے ہی قوانین کے شقوں پر اعتراضات کا مطالبہ اٹھایا تھا۔ انہیں نشانزد کرنے کے ساتھ ہی کسان رہنماؤں نے واضح طور پر کہا تھا کہ ان قوانین کے تحت یہ شقیں کسانوں کی اراضی اور مارکیٹ کی سیکیورٹی پر حملہ کرتی ہیں اور کارپوریٹ اور غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعہ کاشتکاری کے بازار میں داخلے کی ہمنوائی کرتی ہیں۔ انھیں یہ اسٹریٹجک، نقطہ نظر، مقصد اور آئینی بنیاد پر قبول نہیں ہے، لیکن حکومت نے جان بوجھ کر اسے نظرانداز کیا۔
حکومت گذشتہ سات ماہ سے جاری جدوجہد کے مسئلے کو حل کرنے پر راضی نہیں
یہ بات واضح ہے کہ حکومت گذشتہ سات ماہ سے جاری جدوجہد کے مسئلے کو حل کرنے پر راضی نہیں ہوئی ہے، جس میں دو لاکھ سے زائد کسان گذشتہ 30 دنوں سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال پر بیٹھے ہیں۔
دھرنا و مظاہرہ کی چہار جانب سے طاقت بڑھ رہی ہے اور کسان کئی مہینوں کی تیاری کے بعد یہاں آئے ہیں۔ اس احتجاج و مظاہرہ میں قرب و جوار کے علاقوں اور دور دراز کی ریاستوں سے کسانوں کی شرکت بڑھ رہی ہے۔ آج مہاراشٹر سے 1000 کسانوں کا ایک جتھا شاہجہاپور پہنچا ہے، جبکہ اتراکھنڈ کے 1000 سے زیادہ کسان غازی پور کی طرف روانہ ہوچکے ہیں۔ دو سو سے زیادہ اضلاع میں باقاعدہ احتجاج اور مستقل دھرنے و مظاہرے کئے جارہے ہیں۔
اے آئی کے ایس سی سی نے حکومت کی ہٹ دھرمی والے رویے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت کسانوں کے مستقبل، ان کی بقاء اور سردی کی وجہ سے ان کی دکھوں اور پریشانیوں سے بھی بے نیاز ہے۔ اے آئی کے ایس سی سی نے ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے استحصال اور ظلم و زیادتی کی شدید مذمت کی ہے۔ ہریانہ کے 13 کسانوں کے ذریعہ وزیر اعلی منوہر لال کھٹر کی مخالفت کرنے پر ان تیرہ کسانوں کیخلاف دفعہ 307 کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، جو حقیقی احتجاج و مخالفت کو دبانے کیلئے کیا گیا ہے جس سے احتجاج میں اضافہ ہوگا۔