اگر کوئی بالغ اپنی پسند کی شادی اور مذہب تبدیل کرتا ہے تو کسی کو بھی مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں: کلکتہ ہائی کورٹ

19 سالہ لڑکی کے ذریعہ اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کئے جانے کے بعد کلکتہ ہائی کورٹ میں والد نے عرضی دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکی کو گمراہ کرکے شادی کی گئی ہے۔

کلکتہ: بیٹی کی شادی کو رد کرنے کی والد کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر کوئی بالغ اپنی پسند کے مطابق شادی اور مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس میں کسی کو بھی مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔

19 سالہ لڑکی کے ذریعہ اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کئے جانے کے بعد کلکتہ ہائی کورٹ میں والد نے عرضی دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکی کو گمراہ کرکے شادی کی گئی ہے۔ ان کے ذریعہ ایف آئی آر درج کئے جانے کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے ان کی بیٹی کا جو بیان درج کرایا تھا وہ مناسب ماحول نہیں تھا۔

اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس سنجیب بنرجی اور جسٹس ارجیت بنرجی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا کہ اگر کوئی بالغ اپنی پسند کے مطابق شادی کرتا ہے اور اس کے آبائی گھر میں منتقل ہونے اور آبائی گھر واپس نہیں آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس معاملے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔

والد کی شکایت پر ہائی کورٹ کی ہدایت

والد کی شکایت پر ہائی کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ خاتون تہتہ میں سینئر ترین ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے سامنے بیان دیں۔ بنچ نے کہا کہ ایڈیشنل جج کے سامنے لڑکی کے بیانات دینے کے باوجود والد کے شبہات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ والد کی نمائندگی کرنے والی وکیل، سسمیتا سہا دتہ نے ڈویژن بنچ کے سامنے دعویٰ کیا کہ شوہر ندیا ضلع کے تہتہ میں عدالت کے احاطے میں موجود تھا جب خاتون جج کے سامنے پیش ہوئی تھیں۔

بنچ نے ہدایت کی کہ والدین کے شبہات کو ختم کرنے کے لئے 23 دسمبر کو ایڈیشنل پبلک پراسٹیکوسر باپولی سے ملاقات کرے گی۔ بنچ نے کہا کہ جب لڑکی باپولی سے ملاقات کریں گی اس وقت اس کے شوہر سمیت کمرے میں کوئی شخص موجود نہیں رہے گا۔ اس معاملے کی کی 24 دسمبر کو دوبارہ سماعت ہوگی۔ باپولی عدالت میں مختصر رپورٹ پیش کریں گے۔