نیتی آیوگ کے سی ای او امیتابھ کانت نے اصلاحات میں رکاوٹ کا سارا ٹھیکرا ملک کی جمہوریت یا "حد سے زیادہ جمہوریت” پر پھوڑ ڈالا، لیکن جن کی فلاح کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے اگر وہی نا خوش ہیں، تو ایسے قانون کا فائدہ ہی کیا؟
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
جمہوریت کی اصطلاح کے لیے مختلف معانی اور تشریحات بیان کی جاتی ہیں۔ جمہوریت کو ایک سیاسی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کا نام دیا جاتا ہے۔ جمہوریت کے وضع کردہ اصولوں کی بنا پر ہم کسی حکومت، ریاست، معاشرے یا نظریے کو جانچ سکتے ہیں کہ کیا وہ نظام یا نظریہ جمہوری ہے یا نہیں۔ جہاں تک جمہوری حکومت کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ "عوام کے ذریعہ، عوام کے لیے، عوام کی حکمرانی” ہی جمہوری حکومت ہے۔ لیکن الگ الگ ادوار اور حالات میں جمہوریت کے استعمال سے اس کی اصطلاح کچھ پیچیدہ ہو گئی ہے۔
عام طور پر جمہوری حکومت سے مراد ایک ایسی حکومت ہے جس میں اختیارات اور فیصلہ سازی کا منبع عوام ہوتے ہیں۔ عوام اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ انہیں کس طرح کا حکومتی، انتظامی، عدالتی، معاشی اور معاشرتی نظام پسند ہے۔ جمہوری نظامِ حکومت کی ایک شکل نمائندہ حکومت ہوتی ہے جس میں عوام اپنے نمائندے منتخب کر کے نظامِ حکومت انہیں سونپ دیتے ہیں۔ اب یہ منتخب حکومت یا جماعت کی صوابدید پر ہے کہ وہ اُن عوام کی کتنی خیر خواہ ثبت ہوتی ہے جنہوں نے اسے یہ منصب سونپا ہے۔
موجودہ حکومت اور جمہوری اصول
پھر یہ حکومت اپنے عوام کے لیے کتنی سود مند ثابت ہوئی ہے، اس کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ کیا اس ملک میں لوگوں کو اپنی بات کے اظہار اور سرکار کی پالیسیوں پر آزادانہ طریقہ سے اپنی رائے رکھنے اور تنقید کرنے کی آزادی ہے یا نہیں؟ کیا اس ملک میں مضبوط اپوزیشن موجود ہے یا نہیں؟ کیا وہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے؟
اس کی جانچ کا پیمانہ یہ بھی ہے کہ کیا اس ملک میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے یا نہیں؟ چونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں یا قانون کا اطلاق مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ کیا ہر کسی کی جان اور مال محفوظ ہے یا نہیں؟ معاشی اور معاشرتی انصاف موجود ہے یا معاشرہ طبقاتی نظام میں تقسیم ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا اس ملک کا میڈیا آزاد ہے یا اس پر قدغن لگائی گئی ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں، جن کی روشنی میں ہم اپنی اپنی جمہوری حکومتوں کے کام کاج اور اس کے طریقہ کار کو جانچ سکتے ہیں۔
کیا اس ملک میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے؟ کیا ہر کسی کی جان اور مال محفوظ ہے؟ معاشی اور معاشرتی انصاف موجود ہے یا معاشرہ طبقاتی نظام میں تقسیم ہے؟ اور کیا اس ملک کا میڈیا آزاد ہے یا اس پر قدغن لگائی گئی ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں، جن کی روشنی میں ہم اپنی اپنی جمہوری حکومتوں کے کام کاج اور اس کے طریقہ کار کو جانچ سکتے ہیں۔
اب اس تناظر میں ہم اپنی موجودہ حکومت کی کارکردگی کو دیکھیں اور پرکھیں، تو پائیں گے کہ موجودہ حکومت مذکورہ جمہوری اصولوں پر کھری نہیں اترتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ ’عوام کے ذریعہ، عوام کے لیے، عوام کی حکمرانی‘ کا اصول بالائے طاق رکھ دیا گیا ہےتو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔
فی الحال ملک کے کسان جن قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، اس سے پہلے بھی موجودہ مودی حکومت نے ایسے قوانین وضع کئےیا ایسے اقدامات کئے کہ ان اقدامات سے براہ راست جن لوگوں (عوام) کا تعلق تھا، انھیں یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ نہ کسانوں سے یا ان کے نمائندوں سے کوئی رائے مشورہ اور نہ ہی دوسرے طبقہ سے کو ئی گفت و شنید کی گئی۔ مثال کے طور پر جس طرح حال ہی میں لائے گئے زرعی قوانین میں کسانوں یا ان کے نمائندوں سے کوئی رائے مشورہ نہیں کیا گیا، ٹھیک اسی طرح گزشتہ برس طلاق ثلاثہ سے متعلق قانون بنانے سے پہلے مسلمانوں، ان کے نمائندوں یا ماہرین شریعت سے کوئی گفت و شنید نہیں کی گئی۔
کیا اس ملک میں لوگوں کو اپنی بات کے اظہار اور سرکار کی پالیسیوں پر آزادانہ طریقہ سے اپنی رائے رکھنے اور تنقید کرنے کی آزادی ہے؟ کیا اس ملک میں مضبوط اپوزیشن موجود ہے؟ کیا آئین اور قانون کی حکمرانی ہے یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے؟
لاکھوں مسلمان مخالفت اور احتجاج کرتے رہے، لیکن ایک نہیں سنی گئی۔ اس کے بعد شہریت ترمیم بل، این آر سی اور این پی آر جیسے اقدامات ہوں یا حال ہی میں یو پی کی آدتیہ ناتھ حکومت کے ذریعہ مفروضہ پر مبنی مبینہ لو جہاد سے متعلق آرڈیننس، یا پھر جموںو کشمیر سے دفعہ 370 اور 35 اے کا خاتمہ، یا اس سے پہلے نوٹ بندی کرنے کا فیصلہ۔ ان تمام اقدامات میں بہت کچھ یکسانیت پائی جاتی ہے۔
پہلی تو یہی کہ جن لوگوں سے متعلق یہ قوانین بنائے گئے یا اقدامات کئے گئے، نہ تو ان سے کوئی رائے مشورہ کیا گیا اور نہ ہی ان کو اعتماد میں لیا گیا۔ دوسرا یہ کہ اگر حکومت کے یہ اقدامات متعلقہ طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئے گئے تو پھر وہی طبقات ان کے خلاف سراپا احتجاج کیوں ہیں؟ پھر تو ’عوام کے ذریعہ، عوام کے لیے، عوام کی حکمرانی‘ کا اصول بے معنی ہو کر رہ گیا۔
کیا حکومت کوئی اعداد و شمار پیش کر سکتی ہے کہ طلاق ثلاثہ کے خلاف جب سے قانون بنایا گیا ہے، ایسی طلاق کے واقعات میں کتنے فیصد کی کمی آئی ہے؟ اسی طرح گزشتہ برس 11 دسمبر کو حکومت نے متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا اور 11 جنوری 2020 میں اسے نافذ کر دیا گیا۔ اس بارے میں بھی کوئی بہت خوش آئند اطلاعات نہیں ہیں۔
شہریت ترمیمی ایکٹ اور جمہوریت
گزشتہ 26 نومبر کو ٹی وی 9 (TV9) نے ایک رپورٹ دی تھی کہ سی اے اے کے بھروسہ ہندوستان آئے پاکستانی ہندو اور سکھ مایوس ہیں اور مالی تنگی اور دیگر پریشانیوں کے سبب تقریباً 243 پناہ گزین واپس جائیں گے۔ ان لوگوں کو واگہا سرحد سے واپس جانے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ افسران کے مطابق پاکستانی پناہ گزینوں کے واپس جانے کی زیادہ تردرخواستیں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور دہلی سے آئی ہیں۔
غور طلب ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ نافذ ہونے کے بعد 31 دسمبر 2014 تک پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی (مسلمان نہیں) پناہ گزینوں کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی۔ ابھی یہ تنازع ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ این آر سی کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا۔
سی اے اے کے بھروسہ ہندوستان آئے پاکستانی ہندو اور سکھ مایوس ہیں اور مالی تنگی اور دیگر پریشانیوں کے سبب تقریباً 243 پناہ گزین واپس جائیں گے۔ ان لوگوں کو واگہا سرحد سے واپس جانے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔
این آر سی یعنی نیشنل رجسٹر آف سٹیزن۔ پہلے یہ آسام تک محدود تھا، لیکن مودی حکومت نے بغیر کسی وضاحت کے اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ آسام میںاین آر سی کے تحت تقریباً 20 لاکھ افراد شہریت کی فہرست میں جگہ نہیں بنا سکے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے ہی آسام کے باشندوں کا کہنا تھا کہ ان کے یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کے آ جانے سے ان کے تشخص کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ یہ بی جے پی کے لیے ایک سیاسی ایشو تھا، لہذا اس نے اس مسئلہ کو خوب اٹھایا، لیکن جب حتمی فہرست تیار ہوئی تو باہر ہونے والوں میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ اس کے بعد بی جے پی نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر بی جے پی سے وابستہ لوگ طرح طرح کے بیانات دیتے رہے، جس سے معاملہ پیچیدہ ہوتا گیا۔
شہریت ترمیمی ایکٹ اور خدشات
یہ ٹھیک ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ ہندوستان کے شہریوں کے لیے نہیں ہے، لیکن این آر سی اور سی اے اے کی مخالفت اس لئے ہوئی کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے خود اپنی تقاریر اور بیانات میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی دونوں کو ایک دوسرے سے منسلک بتایا۔
لوگوں میں خدشات کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ مودی نے ایک عوامی جلسہ میں کہا کہ این آر سی پر ابھی کوئی بات نہیں ہوئی ہے، جبکہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ این آر سی آکر رہے گا۔ اس کے علاوہ مودی حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کیا۔
نوٹ بندی اور کالا دھن
دعویٰ کیا گیا یہ اقدام کالا دھن واپس لانے، نقلی کرنسی باہر کرنے، دہشت گردی اور نکسل ازم پر قدغن لگانے، رشوت خوری روکنے وغیرہ وغیرہ کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن اس فیصلہ کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے، اور غریبوں اور متوسط طبقہ پر کیا قیامت گزری، وہ سب کے سامنے ہیں۔
غرض یہ کہ مودی حکومت نے مذکورہ جو بھی فیصلے کئے، ان میں وہ پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ساتھ ہی جن لوگوں کی فلاح و بہبود اور خیر خواہی کا دعویٰ کیا گیا، وہی اس کا سب سے بڑا شکار بنے۔
کسانوں کا صاف کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین در اصل یہ کاشتکاری میں نجکاری کو فروغ دینے اور اپنے پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوں کو بڑھاوا دینے کے لیے ہیں۔ ان قوانین کے خلاف لاکھوں کسان سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں
یہی حال کسانوں سے متعلق تین نئے زرعی قوانین کا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ نئے زرعی قوانین ملک کے کسانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے لائے گئے ہیں۔ لیکن کسان کہتے ہیں کہ ہمیں ایسی ترقی و خوشحالی نہیں چاہئے۔
کسانوں کا صاف کہنا ہے کہ یہ در اصل یہ کاشتکاری میں نجکاری کو فروغ دینے اور اپنے پسندیدہ کارپوریٹ گھرانوں کو بڑھاوا دینے کے لیے ہیں۔ ان قوانین کے خلاف لاکھوں کسان (مرد،خواتین، بوڑھے، بچے) سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
’دہلی چلو‘ کے بعد ’بھارت بند‘ کیا جا رہا ہے، لیکن حکومت اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے بیٹھی ہے۔ اگر حکومت ان تمام اقدامات کا محاسبہ کرے تو اسے خود احساس ہوگا کہ یہ فیصلے کسی بھی صحت مند اور کامیاب جمہوریت کی علامت نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں اصلاحات کے لیے ملک میں ‘حد سے زیادہ جمہوریت’ کو رکاوٹ قرار دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ عوامی رائے اور اختیارت کو کم سے کم اہمیت دی جائے، جو اپنے آپ میں جمہوریت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔
[مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں، ای میل: yameen@inquilab.com]