دہلی کی ہوا پاکستان اور افغانستان کی ’زہریلی ہوا‘ کے سبب مزید خراب

فضائی آلودگی کا بحران شدت اختیار کر گیا: سرحد...

این ایچ آر سی کے پروگرام کا اختتام، آٹھ ممالک کے 33 نمائندگان ہوئے شامل

جنوبی نصف کرے کے ترقی پذیر ممالک کے انسانی...

جھارکھنڈ اسمبلی انتخاب: انڈیا اتحاد کی حکومت بننے کا دعویٰ، ملکارجن کھڑگے کا بیان

جھارکھنڈ انتخابات میں ملکارجن کھڑگے کا دعویٰ، انڈیا اتحاد...

کسان تنظیموں نے دارالحکومت میں بڑھایا دباؤ، کہا ‘مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو دہلی آنے کے تمام راستے بند کر دیے جائیں گے’

کسانوں نے نوئیڈا سے غازی آباد کو آنے والے اور قومی دارالحکومت کو آنے والے کئی راستوں میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر جام کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ کسان تنظمیوں نے 5 دسمبر کو قومی سطح پر دھرنے کی اپیل کی ہے۔

نئی دہلی: کسان تنظیموں نے زرعی اصلاحی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے میں قومی دارالحکومت میں دباؤ بڑھا دیا ہے اور کہا ہے کہ مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد ہی وہ واپس جائیں گے۔

کسانوں نے نوئیڈا سے غازی آباد کو آنے والے اور قومی دارالحکومت کو آنے والے کئی راستوں میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر جام کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس دوران وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ کسانوں کے مسائل کا حل ضرور نکلے گا۔

مسٹر تومر نے کہا کہ کسان تحریک کا راستہ چھوڑ کر بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ دہلی کے راستے بند ہونے سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دہلی کے عوام برداشت اور خندہ پیشانی کا ثبوت دیں۔

 3 دسمبر کو حکومت کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کا لائحہ عمل تیار

کسان تنظیموں کی آج دن بھر میٹنگ ہوتی رہی اور تین دسمبر کو حکومت کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کا لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ کسانوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو دہلی آنے کے تمام راستے بند کر دیے جائیں گے۔

 

کسان تنظمیوں نے پانچ دسمبر کو قومی سطح پر دھرنے کی اپیل کی ہے۔

کسان رہنما راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد ہی کسان دہلی سے واپس جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو قومی زرعی پالیسی بنانی چاہیے اور کسانوں کے مسائل حل کرنے چاہییں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے بار بار کسانوں کو دھوکہ دیا۔

آرٹسٹوں کی کسانوں کے مطالبات کی حمایت

اس درمیان کچھ آرٹسٹوں نے کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ سے خاتون کسانوں کا آنا بھی شروع ہو گیا ہے۔ گذشتہ 32 کسانوں تنظیموں کے ساتھ حکومت کے چوتھے دور کی بات چیت ہوگی۔

کسان تنظیموں نے حکومت سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر زرعی اصلاحی قوانین کو رد کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور فصلوں کے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔