مسٹر ومل نے کہا: ‘علامہ اقبال ترکمانستان کے ہوتے تب بھی وہی ہوتے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کشمیر کے تھے یا نہیں، شاعر کبھی کسی مخصوص خطے کا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا تعلق عالم انسانیت سے ہوتا ہے’۔
سری نگر: معروف براڈکاسٹر اور مصنف ستیش ومل کا کہنا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کشمیر کی بجائے دنیا کے کسی بھی خطے کے ہوتے تب بھی اقبال ہی ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ نے اپنے دور کی روایت سے ہٹ کر شاعری کر کے ایک نیا مزاج پیدا کیا جو آج بھی جاری ہے۔
موصوف نے ان باتوں کا اظہار یو این آئی اردو کے ساتھ علامہ اقبال کی یوم پیدائش کے حوالے سے ایک مختصر ٹیلی فونک بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا: ‘علامہ اقبال ترکمانستان کے ہوتے تب بھی وہی ہوتے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کشمیر کے تھے یا نہیں، شاعر کبھی کسی مخصوص خطے کا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا تعلق عالم انسانیت سے ہوتا ہے’۔
مورخین کے مطابق علامہ اقبال کے آبا و اجداد جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں رہتے تھے جنہوں نے یہاں کے ابتر حالات سے مجبور ہو کر اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں کشمیر سے ہجرت کی اور سیالکوٹ میں آباد ہو گئے۔
علامہ اقبال نے اپنے دور کی روایتی شاعری سے ہٹ کر لکھا
مسٹر ومل نے کہا کہ علامہ اقبال نے اپنے دور کی روایتی شاعری سے ہٹ کر لکھا۔ ان کا کہنا تھا: ‘ہر ایک فنکار کی ایک منفرد پہچان ہوتی ہے۔ علامہ نے اپنے دور کی روایتی شاعری سے ہٹ کر لکھا اور اپنے لئے ایک الگ مزاج پیدا کیا جو آج بھی جاری ہے اور جس کو کئی لوگوں نے نقل کر کے آگے بڑھانے کی کوشش کی’۔
ستیش ومل نے کہا علامہ چھوٹے چھوٹے خیالات کو بڑے انداز میں پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شاعر کا کلام آفاقی ہوتا ہے اور ان کو مخصوص فریم میں بند کرنا ان کا درجہ گھٹانے کے مترادف ہے۔
موصوف نے کہا کہ علامہ کے کلام و حیات کے ہزار پہلو ہیں اور ہر کوئی ان کو اپنے حساب سے دیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معروف شعرا حضرات شیخ العالم، احد زرگر، رسول میر وغیرہ کا کلام بھی آفاقی نوعیت کا ہے لہٰذا وہ بھی آفاقی شعرا ہیں۔
مسٹر ومل کا کہنا ہے کہ شاعر یا مفکر کے ساتھ اختلاف کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ادب، فن اور علم کی بھی بازار کی مصنوعات کی طرح توضیح کی جاتی ہے جو ایک غلط روش ہے۔