فوجی کمانڈر مذاکرات: فوجی دستوں کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق نہیں ہوسکا

 

دونوں افواج منفی حالات میں اس علاقے میں ڈٹے رہنے کو تیار ہیں اور وہ اس کے لیے تمام تیاریاں کررہی ہیں۔ دونوں نے متنازعہ علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں فوجیوں اور ہتھیاروں کو جمع کر رکھا ہے۔

نئی دہلی: مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر گزشتہ چھ ماہ سے بھی زیادہ وقت سے چلے آرہے تعطل کوختم کرنے کے لئے ہند اورچین کے فوجی کمانڈروں کے درمیان آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی فوجیوں کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

فوجی کمانڈروں کے درمیان آٹھویں دور کی بات چیت ہندوستانی سرحدی علاقے چشول میں گزشتہ جمعہ کو ہوئی تھی۔ لیکن تقریباً دس گھنٹوں تک چلے اس مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا اور یہ طے پایا کہ فریقین کے درمیان جلد ہی دوبارہ بات چیت ہوگی۔

فوجی کمانڈروں کی بات چیت ختم ہونے کے تقریباً 48 گھنٹے بعد وزارت دفاع نے اس بارے میں مختصر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان لائن آف ایکچول کنٹرول پر تناؤ اور تعطل ختم کرنے کے لیے واضح نظریہ اور تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ دونوں کے درمیان فوجیوں کی واپسی کے سلسلے میں مثبت خیالات کا تبادلہ ہوا۔

اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ دونوں فریق دونوں ممالک کے رہنماؤں کے مابین ہوئے اہم معاہدے کو سنجیدگی کے ساتھ عمل میں لائیں گے۔ وہ یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ محاذوں پر تعینات فوجی تحمل برتیں گے نیز غلط فہمی اور ناسمجھی سے اجتناب کریں گے۔

فریقین کے درمیان چند امور پر اتفاق

دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی اتفاق کا اظہار کیا کہ وہ فوجی اور سفارتی ذرائع سے بات چیت اور رابطے کو برقرار رکھیں گے اور اب تک ہوئی بات چیت کی بنیاد پر زیر التوا امور کو حل کریں گے، جس سے سرحدی علاقوں میں امن اور دوستی کی فضا قائم رہ سکے۔ دونوں فریقوں کے مابین اگلے دور کے مذاکرات جلد ہی ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران ہندوستان نے یہ واضح کردیا کہ وہ فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کی چین کی یکطرفہ تجویز سے متفق نہیں ہے۔

بات چیت میں کوئی ٹھوس اتفاق رائے قائم نہ ہونے سے یہ واضح ہوگیا کہ دونوں افواج منفی حالات میں اس علاقے میں ڈٹے رہنے کو تیار ہیں اور وہ اس کے لیے تمام تیاریاں کررہی ہیں۔ اس سے یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ موسم سرما کے باوجود یہ تعطل طویل ہوگا کیونکہ دونوں ہی فریق اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ دونوں نے متنازعہ علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں فوجیوں اور ہتھیاروں کو جمع کر رکھا ہے۔

اب سبھی کی نگاہیں وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ پر مرکوز ہیں۔ دونوں لیڈران رواں ماہ مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر ورچوول میٹنگوں میں شامل ہونے جارہے ہیں اور اس دوران ان کے درمیان کسی طرح کی بات چیت کا امکان پیدا ہوتا ہے تو اس معاملے پر بھی گفتگو ہوسکتی ہے۔

ہندوستان نے اعلیٰ سطح پر چین کو واضح کردیا ہے کہ وہ ملک کی خودمختاری کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا چاہے اس کے لئے اسے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔