کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج کو کیا جمہوریت کی فتح قرار دیا جائے یا نفرت کی شکست؟
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
کرناٹک کے انتخابی نتائج نے کئی پیغام دئے ہیں۔ یہ پیغام پورے ملک کے لئے بھی ہے، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے بھی ہے۔ اس جماعت کے لئے بھی جو اقتدار سے بے دخل ہوئی ہے اور اس جماعت کے لئے بھی جو فتحیاب ہوئی ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات پر پورے ملک کی نظریں مرکوز تھیں۔ یوں بھی 2024ء کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے کرناٹک کے انتخابات کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ اگرچہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے کئی دیگر ریاستوں کے اسمبلی انتخابات بھی ہوں گے، مگر یہ نتیجے صرف کرناٹک ہی نہیں، پورے ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونے والے ہیں۔ سب سے پہلے اس کا اثر راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور پھر تلنگانہ جیسی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات پر ہوگا۔
ان ریاستوں میں اسی سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی سیاسی جماعتوں نے کرناٹک میں اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ ایک طرف کانگریس نے روایت سے ہٹ کر بہت ہی جارحانہ انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی۔ یہاں تک کہ ہندوتوا کے محاذ پر بھی اس نے بی جے پی کا زبردست مقابلہ کیا، جب کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں بجرنگ دل جیسی شدت پسند تنظیم پر پابندی کا وعدہ کیا۔ ایک ایسے دور میں جب بی جے پی کے پاس انتخاب جیتنے کا ہندوتوا اور مذہب ہی ایک سہارا ہو۔ پھر بھی کانگریس نے بجرنگ دل پر پابندی کا وعدہ کرکے کرناٹک کے ساتھ ملک کے عوام کو بھی ایک پیغام دے دیا۔
وہیں دوسری جانب بی جے پی نے پورا الیکشن نریندر مودی کے سہارے لڑا۔ انھوں نے بھی اپنے عہدے کے وقار کا خیال نہ رکھتے ہوئے ہر وہ حربہ اپنایا جس کے لئے مودی اور بی جے پی مشہور ہیں۔ وہی مذہبی نعرے، وہی عوام کے جذبات سے کھیلنا اور بنیادی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا سلسلہ کرناٹک میں بھی جاری رہا۔ کرناٹک کے عوام چاہتے تھے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی پر بات ہو، مگر بی جے پی نے صرف ہندو مسلمان، حجاب، بیف پر پابندی، حلال فوڈ، بجرنگ بلی، یکساں سول کوڈ، مبینہ لو جہاد، پروپیگنڈہ پر بنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ تک کو پولرائزنگ کے لئے خوب استعمال کیا۔
مودی اور امت شاہ کی جوڑی نے بجرنگ دل جیسی فرقہ پرست تنظیم کو بجرنگ بلی یعنی ہنومان جی سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایک شدت پسند اور متنازعہ تنظیم کو ہنومان کے مترادف قرار دینے پر الیکشن کمیشن میں شکایت بھی کی گئی۔ لیکن کمیشن نے اس کے لیے نہ تو بی جے پی لیڈروں کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ ہی انہیں مذکورہ مہم سے روکا۔ صرف آخری دن ہنومان چالیسہ پڑھنے کی اپیل پر روک لگا کر خانہ پری کردی گئی۔ کرناٹک کے عوام کو یہ پسند نہیں آیا، نتیجہ سامنے ہے۔ کرناٹک کے علاوہ بی جے پی جنوبی ہندوستان کی دیگر ریاستوں تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور کیرالہ میں طویل عرصہ سے ہاتھ پیر مار رہی ہے، مگر ابھی تک اسے کامیابی نہیں ملی ہے۔ پچھلی مرتبہ خرید و فروخت کرکے کرناٹک میں حکومت بنا لی تھی۔ اس مرتبہ ریاست کے عوام نے اس کا جواب بھی کانگریس کی شاندار جیت کی شکل میں دے دیا ہے۔ اس طرح جنوبی ہندوستان میں ’نفرت کی دکان‘ بند ہو گئی ہے۔
کرناٹک کے اسمبلی انتخاب کانگریس کے نقطہ نظر سے بہت اہم مانے جا رہے تھے۔ کرناٹک کا اقتدار کانگریس کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ اس وقت ملک کی سطح پر دیکھیں تو مجموعی طور پر کانگریس کی صورت حال انتہائی قابل رحم ہے۔ یقیناً کرناٹک سے ملنے والی طاقت کانگریس میں ایک نئی جان پھونک دے گی۔ کانگریس کے لئے گزشتہ ایک دہائی کے دوران شاید یہ پہلا انتخاب ہوگا جو اس نے پورے جوش و خروش، منصوبہ بندی اور دانشمندی کے ساتھ لڑا۔ کانگریس نے اپنی پوری انتخابی مہم میں ریاست کے بنیادی مسائل کو ہی پیش پیش رکھا۔ پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ کانگریس اقتدار مخالف لہر کا فائدہ اٹھانے اور الیکشن جیتنے کیلئے ہی میدان میں اُتری ہے۔
پارٹی لیڈران نے رائے دہندگان کو اعتماد میں لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صدر ملکارجن کھڑگے، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، سدارمیا اور ڈی کے شیو کمار ایک جنگجو کی طرح میدان میں ڈٹے رہے۔ سونیا گاندھی نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ویسے انتخابی سیاست میں کانگریس کے لیے پچھلی دہائی بہت مایوس کن رہی ہے۔ اس دوران کانگریس کو پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑاہے۔ 2014ء اور2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی بہت خراب رہی۔ اس کے ساتھ ہی ہماچل اور راجستھان کو چھوڑ کر کئی ریاستوں میں اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس نے اب تک کی سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسے صرف 44؍ سیٹیں مل سکیں۔ کانگریس کا ووٹ شیئر بھی پہلی بار 20؍ فیصد سے نیچے آگیا۔ کانگریس اتنی سیٹیں بھی حاصل نہیں کر سکی کہ وہ لوک سبھا میں اہم اپوزیشن پارٹی کا درجہ حاصل کر سکے۔ 2019ء میں بھی کانگریس کی کارکردگی میں کوئی بہتری نہیں آئی اور اسے صرف 52؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ اسے اپنا ووٹ شیئر بڑھانے میں بھی کامیابی نہیں ملی۔ ان 10؍ برسوں میں ایک ایک کرکے کئی ریاستوں میں کانگریس کے ہاتھ سے اقتدار چلا گیا۔
اب صرف ہماچل پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے۔ اس میں بھی اسی سال چھتیس گڑھ اور راجستھان میں انتخابات ہونے والے ہیں، جہاں پارٹی کو داخلی انتشار کا بھی سامنا ہے۔ مسلسل شکستوں کی وجہ سے کانگریس کے کارکنوں اور حامیوں میں بھی مایوسی کا ماحول تھا۔ ایسے میں کرناٹک کے نتیجے کانگریس کا مستقبل طے کرنے والے ہیں۔ کیوں کہ کانگریس کی خستہ حالی کے سبب آہستہ آہستہ باقی اپوزیشن پارٹیاں پہلے کی طرح کھل کر کانگریس پر اپنے اعتماد کا اظہار نہیں کر پا رہی ہیں۔ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کو اپوزیشن کی قیادت سونپنے سے بھی کترا رہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر علاقائی لیڈران محسوس کرتے ہیں کہ کانگریس سے ہاتھ ملانے سے کہیں نہ کہیں ان کا نقصان ہو گا۔ ظاہر ہے اب کرناٹک کے نتائج کے بعد اس صورت حال میں یقیناً بڑی تبدیلی آئے گی۔
کرناٹک کے انتخابی نتائج نے بی جے پی کو بھی واضح پیغام دے دیا ہے۔ مودی، اَمت شاہ، نڈا اور پارٹی کے دیگر لیڈران کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوتوا کا سکہ ہر جگہ اور ہر وقت نہیں چلتا۔ ہمیں یاد ہے کہ کرناٹک میں ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ بہت پہلے سے ایسا ماحول بنایا جارہا تھا کہ یہ انتخاب ہندو مسلم کی بنیاد پر ہی لڑا جائے گا۔ کبھی حجاب اور حلال کا مسئلہ کھڑا کیا گیا، کبھی مسلم تاجروں اور دُکانداروں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی، کبھی ٹیپو سلطان کی شہادت پر سوال اُٹھایا گیا اور تاریخی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے کہا گیا کہ ٹیپو سلطان انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید نہیں ہوئے، بلکہ اُنہیں کرناٹک کی مشہور برادری ’ووکالیگا‘ کے دو جوانوں نے شہید کیا تھا۔ حالانکہ تاریخ دانوں نے اس دعوے کو غلط قرار دیا، مگر بی جے پی لیڈران کو لگتا تھا کہ وہ اس طرح ووکالیگا طبقے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بجرنگ بلی سے بجرنگ دَل کو جوڑنے کی کوشش کو بھی عوام نے مسترد کر دیا۔
عوام کو سمجھ میں آگیا کہ بی جے پی کو فرقہ واریت کے علاوہ بنیادی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کرناٹک کے نتیجوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ ’نفرت کی دکان‘ شمالی ہند کے علاقوں میں تو چل سکتی ہے، مگر جنوبی ہند میں نہیں چلے گی۔ یعنی کانگریس نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے میں کامیاب ہو گئی۔ بی جے پی اور اس کے لیڈران کو اب سوچنا ہوگا کہ نفرت کے بازار کو یونہی سجاتے رہیں گے یا پھر عوام کے بنیادی مسائل پر بھی بات کریںگے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں نفرت کے بازار کو لمبے عرصہ تک نہیں سجایا جا سکتا۔ ملک کے سمجھدار عوام کو بہت دنوں تک نفرت انگیزی، فرقہ پرستی، ذات پات اور غیر ضروری مسائل میں الجھا کر نہیں رکھا جا سکتا۔
yameen@inquilab.com (مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)