بدھ, جون 7, 2023
Homeرائےہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ نفرت کے خلاف عدلیہ کا کڑا...

ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ نفرت کے خلاف عدلیہ کا کڑا رخ!

ہمارے ملک ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ نفرت کے خلاف یا تو متاثر طبقہ آواز اٹھارہا ہے یا پھر عدلیہ۔ حکومت، پولیس اور انتظامیہ تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہوتے ہیں

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
چند روز پہلے ہی سپریم کورٹ نے ملک میں بڑھتی نفرت کے سلسلہ میں انتہائی سخت تبصرے کئے تھے۔ سیاست، حکومت، پولیس اور میڈیا سب ہی سپریم کورٹ کے سخت تبصروں کی زد میں تھے۔ مگر زمینی سطح پر سپریم کورٹ کی سختی کا کوئی اثرنہ پہلے نظر آیا اور نہ ہی اب نظر آ رہا ہے۔ سیاست بے لگام ہے، حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، پولیس کا کردار تو بدل ہی گیا ہے اور میڈیا کے ایک طبقے نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ ملک کو نفرت کی آگ میں جلا کر راکھ کر دینا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ رام نومی کے موقع پر ایک بار پھر ملک کی مختلف ریاستوں کے متعدد شہروں اور قصبوں میں فرقہ وارنہ تشدد کے واقعات رونما ہو گئے۔ اقلیتی طبقہ کوپھر نشانہ بنایا گیا، ان کی ملکیت اور مذہبی مقامات پر حملے کئے گئے اور پھر وہی مجرم ٹھہرائے گئے۔

پچھلے کچھ برسوں کے دوران رام نومی کو ایک تہوار کی شکل میں منانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ایک خاص پوجا کے ساتھ بڑے پر سکون انداز میں رام نومی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش کی طرف سپریم کورٹ نے بھی توجہ دلائی ہے۔ رام نومی کے تہوار کو بھی اسی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو سپریم کورٹ کا تبصرہ صد فیصد درست لگتا ہے۔ رام نومی کے موقع پر نکالے جانے والے جلوس اور ’یاترائیں‘ ایک فرقہ کے خلاف نفرت پھیلانے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد کی خبریں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ جلوس میں شامل شر پسند عناصر، جو کہیں نہ کہیں ایک مخصوص تنظیم اور سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں، ہاتھوں میں تلواریں، ڈنڈے اور ممنوعہ ہتھیار، زبان پر نفرت انگیز اور آتشیں نعرے، دوسرے مذاہب کے خلاف اشتعال انگیزی اور ہنگامہ آرائی، مسجدوں کے سامنے، ان کی چھتوں پر اور درگاہوں میں داخل ہو کر مذہبی پرچم لہرانا اور اشتعال انگیز نعرے بازی ان جلوسوں کی علامت بن چکی ہیں۔ نتیجہ فرقہ وارانہ فساد کی شکل میں سامنے آتا ہے۔


در اصل اسی اشتعال انگیزی کی پشت پناہی اور اس کی بنیادوں کی طرف سپریم کورٹ نے دھیان دلایا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ان شر پسند عناصر کو کسی خاص جماعت یا تنظیم کی حمایت اور پشت پناہی حاصل نہیں ہوگی تو یہ واقعات بار بار رونما نہیں ہوں گے۔ اگر واقعی حکومت، پولیس اور انتظامیہ ان عناصر کے خلاف ایک بار سختی کا مظاہرہ کریں تو یہ دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح اگر میڈیا اپنے حقیقی کردار میں سامنے آئے تو ان واقعات پر لگام لگانے میں بہت آسانی ہوگی۔ انہی سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت عظمی نے اشتعال انگیزی اور بڑھتی نفرت کے ہر پہلو کو سامنے رکھ کر تبصرے کئے ہیں اور سخت رویہ اختیار کیا ہے۔

اگر کہا جائے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں بڑھتی نفرت، اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات کے معاملے میں فیصلہ کن جنگ لڑنے کا اعلان کردیا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے کہا ہے کہ اب ہمیں اقدامات بھی فیصلہ کن اندازمیں ہی کرنے پڑیں گے۔ بنچ نے بالکل واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ جس وقت سیاست اور مذہب کو الگ کر دیا جائے گا، ملک میں نفرت انگیزی بند ہو جائے گی۔ بنچ نے نفرت کے خلاف کارروائی نہ کرپانے والی حکومتوں کے لئے انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے۔

بنچ نے یہ کہا کہ یہ حکومتیں ’ ناکارہ ‘ ہو گئی ہیں جو وقت پڑنے پر کارروائی نہیں کرتی ہیں ۔ انہی کی وجہ سے نفرت کو شہ مل رہی ہے۔ اس دو رکنی بنچ میں جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگرتنا شامل ہیں۔ ان میں جسٹس جوزف اس سے قبل ٹی وی چینلوں کی اشتعال انگیزی کے خلاف سرکار اور چینلوں کے خلاف سخت تبصرہ کر چکے ہیں۔ وہیں جسٹس بی وی ناگرتنانے نوٹ بندی کے معاملے میں آئینی بنچ میں شامل رہتے ہوئے اختلافی فیصلہ دیا تھا۔ اس سے قبل بنچ نے نفرت انگیز تقاریر اور بیانات کے معاملے میں حکومتوں کی تساہلی اور کارروائی نہ کرنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

نفرت انگیز تقاریر اور بیانات کے تناظر میں بنچ نے کہا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارے پاس پنڈت جواہر لال نہرو اور اٹل بہاری واجپئی جیسے مقررین تھے۔ لوگ دور دراز کے علاقوں سے ان کو سننے آتے تھے کیوں کہ وہ تقریریں ہی اتنی اچھی کرتے تھے۔ وہ نفرت نہیں پھیلاتے تھے، بلکہ محبت کی باتیں کرتے تھے۔ اب جن لوگوں کے پاس کہنے کو کچھ خاص نہیں ہے، بلکہ ان کا مقصد صرف نفرت پھیلانا ہے وہ تقریریں کرکے سماج میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس محاذ پر بالکل سناٹا ہے۔ ان دونوں ججوں کا یہ تبصرہ یقیناً زمینی سچائی پر مبنی ہے۔ ہم اگر پچھلے کچھ برسوں میں ملک کے بڑے سے

بڑے سیاستدانوں اور اعلی عہدوں پر فائز لوگوں کے بیانات کا جائزہ لیں تو عدالت کا تبصرہ انہی کی طرف اشارہ ہے۔ جسٹس جوزف اور جسٹس ناگرتنا کی بنچ نے یہ سوال بھی کیا کہ حکومتیں سماج سے اس جرم کو ختم کرنے کے لئے کوئی طریقہ کار کیوں نہیں بنا سکتی ہیں؟ انہوں نے پوچھا کہ نہیں بناسکتی ہیں یا پھر نہیں بنانا چاہتی ہیں؟ بنچ کے مطابق بھائی چارے کا خیال بہت اچھا تھا، لیکن ہمیں یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ اس میں دراڑیں پڑرہی ہیں اور اس کے لئے حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھانا چاہتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے ملک میں بڑھتی نفرت کے لئے کہیں نہ کہیں سیاستدانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی اور کہا کہ نفرت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کےسیاستداں اپنی سیاست کے لئے کھل کر مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔بنچ نے کہاکہ سماج میں تحمل ہونا چا ہئے۔ اس ملک کے شہریوں کو حلف لینا چاہئے کہ وہ دوسروں کی تذلیل نہیں کریں گے۔عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر کا استعمال لعنت کا ایک شیطانی چکر ہے، جو حکومتوں کی بروقت کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے جاری ہے۔بنچ نے کہا کہ جس دن ملک کی سیاست میں مذہب کی آمیزش ختم ہو جائے گی یا مذہب کا استعمال بالکل ختم ہو جائے گا، ملک سے نفرت ختم ہو جائے گی، لیکن اس تعلق سے کوئی بھی سیاستداں سننےکو تیار نہیں ہے۔کوئی بھی بڑھتی نفرت کیخلاف آواز نہیں اٹھانا چاہتا۔


در اصل وہ سیاستداں جنھوں نے اپنی کامیبابی کا زینہ نفرت کو ہی بنایا ہو، مذہب کی سیاست ہی ان کی بنیاد ہو، اشتعال انگیزی ان کی تقریروں کا محور ہو، شر پسند اور فرقہ پرست عناصرہی ان کی اصل طاقت ہوں، ان سے آخر کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ سماج سے نفرت کے اس ناسور کو ختم کرنے کے لئے کام کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ تبصروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ اب بھی وقت ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے مظلوم طبقہ کے اعتماد کو متزلزل نہ ہونے دے۔ اس سے پہلے بھی عدالت عظمی سیاستدانوں اورٹی وی چینلوں کی نفرت انگیزی کے خلاف سخت تبصرے کر چکی ہے۔ اس کے باوجود مہاراشٹر میں سلسلہ وار ریلیاں ہوتی ہیں اور کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کی جاتی ہیں۔

اسی طرح رام نومی کے موقع پر نکلنے والے جلوسوں میں اشتعال انگیزی اور پولیس و حکومتوں کا خاموش تماشائی بنے رہنا ثابت کرتا ہے کہ ان پر سپریم کورٹ کے تبصروں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ٹی وی چینلوں پر باقاعدہ ایک مہم کے تحت ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلانے والے پرگراموں اور مباحثوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لہذا اگر واقعی ملک سے نفرت کو ختم کر نا ہے تو قصورواروں اور خاطیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا اور انہیں پابند سلاسل کرنا ہوگا۔ سیاستدانوں،حکومت، انتظامیہ، پولیس اور نفرت پھیلانے والے میڈیا سے تو کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ عدالت عظمی ہی سے توقع ہے کہ وہ اب اس سمت کوئی سخت اور زمینی کارروائی کرے گی۔ورنہ تاریخ پہ تاریخ اور تبصرے پر تبصرے کرتے کرتے بہت دیر نہ ہو جائے۔


yameen@inquilab.com (مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments