بدھ, جون 7, 2023
Homeرائےراہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت منسوخ کرنا جمہوریت کے لئے بڑا المیہ

راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت منسوخ کرنا جمہوریت کے لئے بڑا المیہ

جس طرح حزب اختلاف کے سب سے بڑے چہرے کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی ہے،وہ جمہوریت کیلئے نیک فال نہیں ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ محض ایک رکن پارلیمنٹ کی رکنیت ختم ہو جانے کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ بات راہل گاندھی تک محدود ہوتی، تب بھی مان لیا جاتا کہ انھوں نے جو کیا اس کی سزا انہیں ملی۔ شمال سے لے کر جنوب تک اور مغرب سے لے کر مشرق تک اپوزیشن لیڈران کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کی مضبوط آواز لالو یادو اور ان کا کنبہ ہو، یا پھر دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا، تلنگانہ کی رکن پارلیمنٹ کے کویتا ہوں یا پھر مہاراشٹر کے قد آور لیڈر سنجے راؤت اور نواب ملک وغیرہ۔ یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے، مگر تعجب اس بات کا ہے کہ حکمراں جماعت یا اس کی اتحادی جماعت کے کسی لیڈر پر اس قسم کا نہ کوئی الزام ہے، نہ اس کے خلاف کوئی جانچ۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ اپوزیشن لیڈران کے معاملے میں قانون بھی کس تیز رفتاری سے اپنا کام کررہا ہے۔ بھلے ہی یہ معاملات قانون کے دائرے میں انجام پارہے ہیں، مگرموجودہ حکومت نے اس کے ذریعہ بہت سے پیغام دے دئے ہیں۔ اشارہ دے دیا گیا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات کوئی معمولی انتخابات نہیں ہیں۔ یہ خود حکمراں جماعت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے لئے بھی سنگ میل ثابت ہوں گے۔ ان انتخابات میں ملک کی سیاسی سمت اور ملک کا مستقبل طے ہوگا۔ یہ بھی طے ہوگا کہ ملک کی جمہوری اقدار و روایات پر کس حد تک عمل کیا جاتا ہے۔


کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اس وقت کیرالہ کے وائناڈ سے لوک سبھا کے رکن ہیں۔ 2019ء میں وہ اپنے روایتی حلقے یوپی کے امیٹھی اور وائناڈ سے انتخابی میدان میں اترے تھے، مگر امیٹھی میں حیرت انگیز طور پر انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب راہل گاندھی کو وائناڈ لوک سبھا سیٹ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

راہل کو مجرمانہ ہتک عزت کے مقدمے میں دو سال کی سزا سنائے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی لوک سبھا کے رکن کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ راہل کو گجرات کی ایک عدالت نے مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں ان کے تبصرے پر دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اگرچہ انہیں ضمانت مل گئی ہے اور فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے 30؍ دن کا وقت دیا گیا ہے، تاہم اس کے باوجود فوری طور پر لوک سبھا سیکریٹریٹ نے ان کی رکنیت کی منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔عوامی نمائندگی ایکٹ 1951ء کے سیکشن 8(3) کے تحت جب کسی رکن پارلیمنٹ کو کسی معاملہ میں دو سال کی قید کی سزا سنائی جاتی ہے، تو وہ رکنیت سے محروم ہو جاتا ہے۔

سمجھا جاتا ہے کہ راہل کو 30؍ دن کا وقت نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ملا ہے اور اس کا راہل کی پارلیمنٹ کی رکنیت کو کالعدم قرار دیے جانے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ 2019ء میں جب راہل گاندھی نےایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم مودی کو نشانہ بنایا تو انہیں اندازہ نہیں ہوگا کہ اس بیان پر انہیں دو سال کی سزا ہو سکتی ہے اور ان کی رکنیت بھی ختم کی جا سکتی ہے۔ انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں تقریباً ہر جماعت کے لیڈر اپنے حریفوں کے خلاف اکثر متنازعہ تبصرے کرتے ہیں یا حد سے گزر جاتے ہیں۔ راہل گاندھی نے بھی کچھ ایسا ہی تبصرہ کیا تھا۔ 13؍ اپریل 2019ء کو کرناٹک کے کولار میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راہل نے کہا تھا، ‘’سب چوروں کا نام مودی ہی کیوں ہے؟ چاہے وہ للت مودی ہو یا نیرو مودی یا نریندر مودی؟ سب چوروں کے نام میں مودی کیوں شامل ہے؟‘ بس یہی بیان آج راہل گاندھی کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا گیا ہے۔ ویسے راہل گاندھی جس قانون کا شکار ہوئے ہیں، اس کی وجہ وہ خود بھی ہیں۔

راہل گاندھی نے 2013ء میں یوپی اے حکومت کے ذریعہ لائے گئے ایک بل کو عوامی طور پر پھاڑ کر پھینک دیا تھا، جس میں یہ تجویز تھی کہ اگر کسی رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ کو سزا ہوجاتی ہے تو فوری طور پر اس کی رکینت منسوخ نہیں ہوگی، بلکہ اس کو اپنی سزا کے خلاف اپیل کیلئے تین ماہ کی مہلت ہوگی۔ اگر کسی رکن اسمبلی یا پارلیمنٹ نے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کردی تو جب تک اس معاملہ میں فیصلہ نہیں آتا، اس وقت تک اس کی رکینت منسوخ نہیں ہوگی، لیکن راہل گاندھی کی سخت مخالفت کے بعد یہ بل پاس نہیں ہوسکا تھا۔ اب راہل کی رکنیت منسوخ ہونے کے بعد ایک بار پھر اس بل کے بارے میں باتیں ہونے لگی ہیں۔ کیوں کہ منموہن سنگھ حکومت کے ذریعہ لایا گیا آرڈیننس اگر نافذ ہو جاتا تو شاید راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ نہ ہوتی۔


ایک طرف راہل گاندھی یا دوسرے اپوزیشن لیڈران کے خلاف ہونے والی کارروائی منصوبہ بند لگتی ہے، وہیں دوسری طرف یہ منصوبہ بندی کہیں نہ کہیں ان لیڈران کے لئے سود مند بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ سلسلہ واقعات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2024ء کے انتخابات سے قبل حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دینا چاہتی ہے، لیکن ایک جمہوری ملک میں یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ جب تک ملک کی رگوں میں جمہوریت کا خون باقی ہے، اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ حزب مخالف کی آواز کو خاموش کر دیا جائے۔ ایسا لگتا نہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں آمریت اور تاناشاہی کی کوششیں کامیاب ہوں گی۔ ملک کے عوام ایک نہ ایک دن پھر جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والوں کی طرف واپس آئیں گے۔ راہل گاندھی کے لئے یہی ٹرننگ پوائنٹ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی نے اب اپنی محنت سے حزب اختلاف کے سب سے بڑے چہرے کے طور پر اپنی جگہ بنائی ہے۔ ان کی سزا اور پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ ہونے کی خبر کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں جو جگہ ملی ہے، اس سے ان کے سیاسی قد کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیو یارک ٹائمس سے لے کر رائٹر تک اور الجزیرہ سے لے کر ڈان تک، سب نے راہل گاندھی کی خبر کی کافی اہمیت دی ہے اور اپنے تبصرے بھی کئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جن اپوزیشن جماعتوں کو کہا جا رہاہے کہ وہ کبھی متحد نہیں ہو سکتیں، راہل گاندھی کے مسئلہ پر سب ایک آواز میں بول رہی ہیں۔ ابھی تک کانگریس سے فاصلہ بنا کر رکھنے والی ممتا بنرجی، اروند کجریوال، کے سی آر، اکھلیش یادو اور نتیش کمار جیسے لیڈران بھی راہل کی حمایت میں حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں بھی مستقبل میں ایسے ہی حالات کا سامنا کرنے کا خوف ستا رہا ہوں، مگر راہل گاندھی کے لئے یہ سود مند ہی ہے۔ خود راہل گاندھی نے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ جو مقبولیت حاصل کی ہے، اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

لندن میں دئے گئے ان کے بیان پر حکمراں جماعت نے بھلے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا ہو اور پارلیمنٹ کی کارروائی تک اس کی نذر ہو گئی ہو، مگر یہ بھی راہل گاندھی کی مقبولیت اور اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ راہل نے پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک جس ہمت اور بے باکی کے ساتھ وزیر اعظم مودی کے نزدیکی سمجھے جانے والے کاروباری گوتم اڈانی کو نشانہ بنایا ہے اور مودی سے ان کے رشوتوں کو سامنے لائے ہیں، اس سے بھی انھوں نے خود کو ایک مضبوط اور اہم اپوزیشن لیڈر کے طور پر ثابت کیا ہے۔ ان واقعات کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ راہل گاندھی کا قد پہلے کے مقابلے کم نہیں ہوا ہے، بلکہ بڑھا ہے۔ ویسے بھی راہل گاندھی اور کانگریس دونوں ہی سیاسی طور پر اتنا گنوا چکے ہیں کہ ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ باقی نہیں ہے۔ یہاں سے بس انہیں حاصل کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ راہل گاندھی کیسے ان حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور کیسے ان حالات کو اپنے حق میں موڑتے ہیں۔


yameen@inquilab.com (مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments