ایران۔ سعودی عرب تعلقات، اندیشے اور امکانات

یہ کیسا المیہ ہے کہ آج وہ طاقتیں جنھیں اسلام اور مسلم مخالف مانا جاتا ہے، وہی ہماری صفوں میں اتحاد قائم کرنے کا اعلان کر رہی ہیں

ڈاکٹر یامین انصاری

ایک عرصہ سے ہم یہ جملہ لکھتے، پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ اسلام کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ اسلام کو مٹانے کے لئے بڑی بڑی طاقتیں منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے، مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے منصوبوں میں دوسرے لوگ اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں، جب ہمارے اپنے اندر کچھ کمزوریاں ہوں۔ اور ہم ان کمزوریوں اور اپنے اعمال و کردار کا محاسبہ کرنا بھول جاتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام یا مسلم دنیا کو جتنا نقصان بیرونی طاقتوں نے پہنچایا ہے، اس سے زیادہ ہمارے اپنے اعمال اور اپنے لوگوں سے اسلام کو نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت بھی اگر مسلم آبادی یا مسلم ممالک کے حالات پر نظر ڈالیں تو اس میں بیرونی طاقتوں سے زیادہ ہمارے اپنے لوگ ہی باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔

قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ کہیں علاقائیت کی بنیاد پر، کہیں مسلک کی بنیاد پر، کہیں ذات پات کی بنیاد پر اور کہیں امیر و غریب کی بنیاد پر تفریق و امتیاز نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ جبکہ دعویٰ ہے کہ ہم ایک اللہ، ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ اگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو بھی رہی ہیں تو ہم ان کے خلاف کیا حکمت عملی اپنا رہے ہیں؟ لکھنے، پڑھنے اور سننے سے آگے ہم نے ان سازشوں کے خلاف عملی طور پر کیا اقدامات کئے ہیں؟ اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ آج وہ طاقتیں جنھیں اسلام اور مسلم مخالف مانا جاتا ہے، وہی ہماری صفوں میں اتحاد قائم کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم خود اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے اقدامات کرتے، چین جیسے ملک ثالثی اور میزبانی کر رہے ہیں۔

عالم اسلام کے لئے بڑی خوشخبری

موجودہ حالات میں عالم اسلام کے لئے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایران اور سعودی عرب جیسی دو بڑی طاقتیں اپنے تعلقات استوار کرنے پر متفق ہو جائیں۔ اپنے مفادات کی خاطر ہی صحیح، چین نے وہ کارنامہ کر دکھایا جو کوئی مسلم ملک نہیں کر سکا۔ اس سے پہلے عراق، بحرین اور دیگر کئی ملکوں نے کوشش کی کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو بحال کرکے نہ صرف خطے میں، بلکہ عالم اسلام میں امن قائم کیا جائے، مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ سعودی عرب اور ایران نے چین کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

عالمی برادری میں اس پیش رفت سے کافی ہلچل دیکھی جا رہی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے نقطہ نگاہ سے اسے دیکھ رہا ہے۔ کوئی اسے چین کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھ رہا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرکے امریکہ کو ایک پیغام دے دیا ہے۔ بہر حال، چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات میں سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العيبان اور ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی شامل تھے۔ دونوں ملکوں نے سات سال بعد تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان مذاکرات کے بعد سعودی عرب اور ایران نے اپنے سفارتی مشن کھولنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات

اعلامیے میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات اور سفارت خانے کھولنے کا عمل دو مہینے کے اندر مکمل کر لیا جائے گا۔ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک نے سکیورٹی تعاون، تجارت، معیشت، ٹیکنالوجی، سائنس، کلچر، کھیلوں اور امور نوجوانان پر 2001ء اور 1998ء میں ہونے والے معاہدوں کی بحالی پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ملاقات پر بھی اتفاق کیا گیا، جبکہ باہمی تعلقات میں اضافے اور سفارت کاروں کی واپسی کے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بحالی کی خبر کو عالم اسلام میں ایک خوش آئند پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عوامی رابطے کی ویب سائٹوں پر عام لوگوں کے مثبت تبصروں کے علاوہ کئی مسلم ملکوں نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ نے بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیرمقدم تو کیا ہے، مگر ساتھ ہی کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں چین کا اہم کردار ہے، مگر سعودی عرب اور ایران کی قیادتوں کی رضا مندی کے بغیر یہ ناممکن تھا۔ ایران کے موجودہ صدر ابراہیم رئیسی اور سعودی عرب کے حکمراں شہزادہ محمد بن سلمان کی طرز حکمرانی میں ہی شاید یہ ممکن بھی تھا۔

سلمان اور رئیسی کے اقدامات

محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب نے کئی ایسے قدم اٹھائے ہیں، جن پر عالم اسلام میں مختلف رد عمل سامنے آئے ہیں ان کے کچھ اقدامات کو لوگوں نے سراہا ہے تو کچھ فیصلوں پر تنقید بھی کی ہے۔ وہیں صدر ابراہیم رئیسی کے ذریعہ ایران کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کئے جانے والے اقدامات سے امید کی کرن پیدا ہوئی۔ خاص طور پر انھوں نے مختلف عرب ممالک کے ساتھ رشتوں پر جمی برف پگھلانے کی کوشش کی۔

ابراہیم رئیسی نے آتے ہی اعلان کیا تھا کہ خلیجی ملکوں سمیت ہمسایہ ریاستوں سے تعلقات میں بہتری تہران کی ترجیحات میں شامل ہے۔ خود ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے بھی کہا تھا کہ ’مسلم دنیا اور خطے کے دو اہم ملک سعودی عرب اور ایران علاقائی امن، استحکام اور ترقی کی خاطر تعمیری مذاکرات کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔‘ اسی طرح سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا تھا کہ ان کا ملک ایرانی صدر کی کاوشوں کو زمینی حقائق میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔‘ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تعلقات بحالی میں چین سے زیادہ دونوں ملکوں کی قیادت کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ یعنی جب خود ٹھان لیا کہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہے تو ممکن ہو گیا۔

اس سے پہلے کشیدہ تعلقات کے حامل دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان 2021ء میں مذاکرات کا سلسلہ چل رہا تھا، مگر مارچ 2023ء میں بغیر کسی وجہ کے تعطل کا شکار ہو گیا۔ در اصل سعودی عرب میں مختلف سنگین جرائم میں ملوث 81؍ افراد کے سرقلم کر دئے گئے۔ الزام تھا کہ اس میں ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں پھانسیوں کے بعد ایران سمیت مختلف ملکوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایران نے مملکت میں اجتماعی پھانسیوں کو ’انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ قرار دیا، جس پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوبارہ کشیدہ ہوگئے۔ اس سے پہلے دونوں ملکوں کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب سعودی عرب نے ایک سرکردہ شیعہ عالم دین شیخ نمر النمر کو 2016ء میں سزائے موت دی، جس پر ایران کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ پھانسی کی مذمت میں تہران اور مشہد کے اندر واقع سعودی عرب کے سفارتی مشن پر حملے کیے گئے۔ مسلکی اعتبار سے بھی دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کا مخالف مانا جاتا ہے۔

شیعہ اکثریتی ایران اور سنی اکثریتی سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں مختلف تنازعات میں ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں۔ یمن اور شام اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں جاری تنازعات اور انتشار کا محور یہی دونوں ملک رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور طاقت آزمائی نے پورے خطے کے امن کو تہہ و بلا کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے مفادات کی خاطر امریکہ، یورپ اور دیگر عالمی طاقتوں کو یہاں پنپنے دینے میں انہی دونوں ملکوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اب جبکہ عالم اسلام کی ان دو بڑی طاقتوں نے تعلقات بحالی کا فیصلہ کیا ہے تو امید کی جانی چاہئے کہ نہ صرف خطہ میں، بلکہ عالم اسلام میں ایک نئی فضا قائم ہوگی۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com