اعداد و شمار تو اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ ضرور دیکھنا ہوگا ہندوستانی شہریت چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ تازندگی کسی دوسرے ملک میں رہے، مگر اپنے گھر اور اپنے وطن کو نہیں بھول سکتا۔ ویسے بھی کسی انسان کے لئے اپنا آبائی وطن چھوڑنا زندگی کا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے پس پشت بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ اپنا گھر بار چھوڑنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنھیں دوسرے ملکوں میں بہتر مواقع کی تلاش ہوتی ہے۔ وہ دولتمند اور ترقی یافتہ ملکوں میں بہتر زندگی کا خواب دیکھتے ہوئے اپنا ملک چھوڑنے کا ارادہ کرلیتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سیاسی، سماجی اور بہت سے دیگر عوامل بھی کام کرتے ہیں۔ ان میں عدم تحفظ، عدم انصاف اور عدم تحمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے ملک میں ان امور پر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران کافی تنازعہ اور مباحثہ بھی ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں جب ہندوستانیوں کے شہریت چھوڑنے کے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو سب سے اہم سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ہندوستانی باشندوں کے دوسرے ملکوں کا رخ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جب ہم ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایمانداری سے اس کے ہر پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
ایک طرف دعویٰ ہے کہ ہم دنیا کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہم ’وشو گرو‘ بننے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف اپنا وطن چھوڑنے والوں کی تعداد میں سال در سال اضافہ ہورہا ہے۔
اس کے ساتھ ہی جہاں ہندوستان جاپان اور جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے، وہیں ایسے لوگ ہیں جو دوسرے ممالک میں ہندوستان سے زیادہ امکانات دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ دعوے کے مطابق تو جن لوگوں نے ماضی میں وطن چھوڑا ہے، انھیں واپس ہندوستان آجانا چاہئے تھا، مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے۔
دراصل گزشتہ سال دو لاکھ 25؍ ہزار سے زیادہ شہریوں نے ہندوستانی شہریت چھوڑ دی اور بیرون ملک میں جا کر آباد ہو گئے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک سال میں ہندوستانی شہریت ترک کرنے والوں کی یہ تعداد اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے خود پارلیمنٹ میں یہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ ۱۲؍برسوںمیں۱۶؍ لاکھ لوگ ہندوستان چھوڑ کر بیرون ملک بس گئے ہیں۔
حکومت کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2011ء سے اب تک 16؍ لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں نے اپنی ہندوستانی شہریت چھوڑ دی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ 2؍ لاکھ 25؍ ہزار 620؍ ہندوستانی وہ ہیں جنہوں نے پچھلے سال ہندوستانی شہریت چھوڑی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے 12؍ سال میں شہریت چھوڑنے والوں کی تعداد میں 60؍ فیصد اضافہ ہوا۔ 2011ء سے اب تک ہندوستانی شہریت چھوڑنے والوں کی کل تعداد 16؍ لاکھ 63؍ ہزار 440؍ ہے۔ 2011ء میں ایک لاکھ 22؍ ہزار 819؍ ہندوستانیوں نے اپنی شہریت ترک کردی، جبکہ 2022ء میں یہ تعداد 60؍ فیصد بڑھ کر 2؍ لاکھ 25؍ ہزار 620؍ تک پہنچ گئی۔ 2011ء کے بعد سے ہر سال شہریت ترک کرنے والے ہندوستانیوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 2012ء میں ایک لاکھ 20؍ ہزار 923؍، 2013ء میں ایک لاکھ 31؍ ہزار 405؍، 2014ء میں ایک لاکھ 29؍ ہزار 328؍، 2015ء میں ایک لاکھ 31؍ ہزار 498؍، 2016ء میں ایک لاکھ 41؍ ہزار 603؍، 2017ء میں ایک لاکھ 33؍ ہزار 49؍، 2018ء میں ایک لاکھ 34؍ ہزار 561؍، 2019ء میں ایک لاکھ 44؍ ہزار 17؍، 2020ء میں 85؍ ہزار 256؍ ہندوستانیوں نے اپنی شہریت ترک کردی۔ ان ہندوستانی شہریوں نے دنیا کے 135؍ مختلف ممالک کی شہریت حاصل کی ہے۔
اعداد و شمار تو اپنی جگہ، لیکن ہمیں یہ ضرور دیکھنا ہوگا ہندوستانی شہریت چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ اتنی بڑی تعداد میں ہندوستانیوں کے اپنی شہریت ترک کرنے سے یہ سوال بھی اٹھنا فطری ہے کہ یہ لوگ اپنی شہریت کیوں چھوڑ رہے ہیں اور کون لوگ ہیں جو اپنی شہریت ترک کر رہے ہیں؟ کیا شہریت ترک کرنے والے سبھی لوگ بہتر مواقع یا روزگار اور ملازمتوں کے لئے دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں؟ یا کچھ صاحب ثروت لوگ بھی ہندوستان کو خیر باد کہہ رہے ہیں؟ یا پھر ملک میں بڑھتی منافرت، عدم تحفظ کا احساس اور عدم تحمل بھی اس کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے؟ پہلی نظر میں لگتا ہے کہ لوگ بہتر تعلیم اور روزگار کے لئے بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں، لیکن سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ ملک چھوڑنے والوں میں خوشحال اور صاحب ثروت لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔
برطانیہ کی انویسٹمنٹ مائیگریشن کنسلٹنسی کمپنی ہینلے اینڈ پارٹنرز کی گزشتہ سال کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک سال میں ہندوستان کے 8؍ ہزار کروڑ پتی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے ساتھ ہندوستان اب امیروں کی نقل مکانی کے معاملے میں سر فہرست تین ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ ہائی نیٹ ورتھ انفرادی وہ لوگ ہیں جن کے اثاثے 8؍ اعشاریہ 25؍ کرروڑ روپے (10؍ لاکھ ڈالر) یا اس سے زیادہ ہیں۔
ہندوستانی شہریت ترک کرنے والوں میں اگر ’کروڑ پتیوں‘ کی اتنی تعداد ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ’لکھ پتی‘ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ تاہم ایسے ’کروڑ پتی‘ لوگوں کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ در اصل جب ان صاحب ثروت لوگوں کے وطن چھوڑنے کی وجہ پر غور کریں تو اس کی بنیادی وجہ خود کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ لوگ ملک کی معاشی صورت حال اور عدم تحفظ کے احساس کو بنیادی مسئلہ سمجھتے ہوئے وطن چھوڑ رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں صحت، تعلیم اور بہتر طرز زندگی جیسی مضبوط بنیادی سہولیات بھی اس کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
اس کے علاوہ جرائم کی شرح میں کمی کے سبب بھی لوگ ان ممالک کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ یہ رجحان عام ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں پیسہ کمانے کے بعد جیسے ہی امیر لوگوں کو موقع ملتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متوسط گھرانوں کے نوجوان تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ جو نوجوان حصول تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں، ان میں سے اکثر کو اپنے اجداد کی زمین جائداد فروخت کرنا پڑتی ہے یا بینکوں سے قرض لینا پڑتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایک طالب علم کے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر تقریباً 25؍ سے 30؍ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں وہیں روزگار میسر ہوتا ہے تو پھر وہ وہیں آباد ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ملک میں بڑھتے عدم تحمل کے رجحان کو بھی ایک بڑی وجہ مان رہے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا تھا کہ وزارت خارجہ کے مطابق ہندوستانی شہریوں نے اپنی ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنی شہریت ترک کر دی ہے۔
آخر یہ ذاتی وجہ کیا ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ سال پہلے مختلف شعبہائے زندگی سے وابستہ کئی اہم شخصیات نے ملک میں عدم برداشت کے ماحول پر تبصرہ کیا تھا۔ اس کے بعد کافی تنازعہ بھی ہوا تھا۔ خود حکمراں طبقے کی جانب سے ان لوگوں کو دوسرے ملکوں میں جانے کے مشورے دئے جانے لگے تھے۔ ایک دو معروف فلمی ہستیوں نے بھی کہا تھا کہ اب ’ملک میں ڈر لگتا ہے‘۔ اس کے بعد ان لوگوں کو اس حد تک نشانہ بنایا گیا، کہ اب کوئی دوسرا اس طرح کا اظہار نہیں کرتا۔ شاید اسی عدم برداشت کا ان شخصیات نے ذکر کیا تھا۔ اب ایک بار پھر ملک سے باہر جانے والوں اور شہریت ترک کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی کچھ تو وجوہات ہوں گی۔ جن کے بارے میں حکومت کو معلومات حاصل کرنا چاہئے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com