جب قاتلوں کی حمایت میں پنچایتیں اور زانیوں کی حمایت میں ریلیاں ہونے لگیں تو اس معاشرے کی تنزلی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
حال ہی میں دوایسے واقعات رونما ہوئے، جن پر خوب تالیاں بجائی گئیں۔ ان میں ایک واقعہ پاکستان میں اور دوسرا واقعہ ہندوستان کے ہریانہ میں پیش آیا۔ اگرچہ دونوں واقعات کی نوعیت الگ تھی اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ کا پیغام بھی مختلف تھا۔ دونوں ہی واقعات میں بنیادی فرق یہ تھا کہ جس بات پر پہلے ’یہاں‘ تالیاں بجتی تھیں، اُس بات پر ’وہاں‘ تالیاں بج رہی ہیں اور جن لوگوں کی حمایت میں پہلے ’وہاں‘ ریلیاں اور جلسے ہوتے تھے، اب اُسی طرح کے لوگوں کے لئے ’یہاں‘ ریلیاں اور پنچایتیں ہو رہی ہیں۔
ان ریلیوں اور پنچایتوں میں ٹھیک اسی طرح کی بھیڑ قاتلوں اور مجرموں کی تائید و حمایت کرتی نظر آ رہی ہے، جیسے پہلے وہاں کے جلسوں میں نعرے بلند کئے جاتے تھے اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ یعنی دونوں معاشروں میں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن اب یہاں جس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں اور معاشرے میں نفرت کی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں، وہ کسی بھی مہذب معاشرے اور ترقی پذیر ملک کے لئے سود مند نہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پہلے وہاں بھی یہ طبقہ بہت محدود تھا اور آج یہاں بھی اس طرح کی حرکتیں کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ یعنی ان حالات کو عمومی طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔
حالیہ واقعات پر مختصر روشنی
جن دو واقعات کا شروع میں ذکر کیا گیا ہے، حالات و واقعات کو سمجھنے کے لئے ان پر مختصر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان کا نام آتے ہی سب سے پہلے ایک دشمن ملک، دہشت گردوں کا معاون و مددگار، انتہا پسندی و شدت پسندی کا پالنہار اور ایک ناکام ریاست کا خیال ذہن میں آتا ہے اور اس میں کوئی مبالغہ آرائی بھی نہیں ہے۔ حالانکہ وہاں کے عوام اور ’سول سوسائٹی‘ میں اس طرح کے رجحانات عام طور پر دیکھنے کو نہیں ملتے، جیسے کہ پاکستان کا نام آتے ہی ذہن میں ابھرتے ہیں۔
ادب و ثقافت، کھیل کود اور فنکاری کے شعبے سے وابستہ افراد ہمیشہ نفرت کے ماحول کے خلاف رہے ہیں اور ان کی آمد رفت بھی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی ناکامیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہیں کے لوگ پاکستان میں بیٹھ کر ہی تالیاں بجاتے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پہلے بھی پاکستانیوں کا رد عمل اسی طرح ہوتا تھا یا اب وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے عاجز آ گئے ہیں؟ یہ سوال مشہور نغمہ نگار جاوید اختر کے حالیہ بیان کے بعد ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔
فیض فیسٹیول
در اصل حال ہی میں پاکستان میں معروف شاعر فیض احمد فیض کے تعلق سے ’فیض فیسٹیول‘ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں ہندوستان کے معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر نے بھی شرکت کی۔ یہاں سوال جواب کے دوران جاوید اختر نے کہا کہ ’ہمیں ایک دوسرے پر الزام نہیں لگانا چاہیے، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، فضا گرم ہے، اسے سدھارنا چاہیے۔ ہم لوگ ممبئی کے لوگ ہیں، اور ہم نے اپنے شہر پر حملہ ہوتے دیکھا ہے۔ حملہ آور ناروے یا مصر سے نہیں آئے تھے اور وہی لوگ اب بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔ لہذا، اگر یہ شکایت ایک ہندوستانی کے دل میں ہے، تو آپ کو برا نہیں لگنا چاہیے۔‘
اس کے بعد وہاں موجود پاکستانی عوام نے ان کے اس بیان پر خوب تالیاں بجائیں۔ ہندوستان میں بھی ان کے بیان کی سوشل میڈیا وغیرہ پرخوب تعریف ہوئی۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی جاوید اختر کی تعریف کرنے سے خود کو روک نہیں سکے۔ اگرچہ پاکستان کے ایک حلقے میں نہ صرف جاوید اختر بلکہ وہاں تالیاں بجانے والوں پر خوب لعن طعن کی گئی۔ کئی اہم شخصیات اور میڈیا سے وابستہ افراد کو یہ بات ناگوار گزری کہ جاوید اختر پاکستان میں آ کر ہی پاکستان کو آئینہ دکھا گئے۔ لیکن سچائی پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکتا۔ معاملہ چاہے یہاں کا ہو یا وہاں کا، دنیا کے سامنے حقیقت آشکار ہو ہی جاتی ہے۔
ادھر ہریانہ میں ’گؤ کشی‘ یا ’گؤ رکشا‘ کے نام پر جس طرح قتل و غارتگری کا ننگا ناچ چل رہا ہے، وہ ہمارے ملک کے مستقبل اور معاشرے کے لئے کسی بھی طرح سود مند نہیں۔ کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور قانون کے رکھوالے یا تو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا پھر براہ راست یا پھر در پردہ قاتلوں اور مجرموں کی تائید و حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت، پولیس اور انتظامیہ سبھی ان حالات کی سنگینی کو نظر انداز کر رہے ہیں، مگر آنے والے وقت میں یہ حالات ملک اور معاشرے کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ نہیں ہے۔
جنید اور ناصر کا بہیمانہ قتل
در اصل 15؍ اور 16؍ فروری کے درمیان راجستھان کے بھرت پور کے رہنے والے جنید اور ناصر نامی دو مسلم نوجوانوں کا بہیمانہ قتل کر دیا گیا۔ الزام ہے کہ بجرنگ دل سے وابستہ ’گؤ رکشکوں‘ نے پہلے دونوں کو بری طرح زدو کوب کیا اور پھر مویشیوں کی اسمگلنگ کے شبہ میں بولیرو سمیت دونوں کو زندہ جلا دیا۔ دونوں کی لاشیں ہریانہ کے ضلع بھوانی کے گاؤں لوہارو کے پاس بر آمد ہوئی تھیں۔ اس پورے معاملے میں ہریانہ پولیس کا کردار بھی شک کے دائرے میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی راجستھان پولیس کی لاپروائی اور بے حسی بھی سامنے آئی ہے۔
در اصل مقتولین کا تعلق راجستھان سے ہے اور ان کا قتل ہریانہ میں ہوا ہے، اس لئے دونوں ریاستوں کی پولیس اس کی تحقیقات میں شامل ہے۔ واقعہ کے دس دن بعد بھی ملزمین کے خلاف جس طرح کی کارروائی ہوئی ہے، اس نے انصاف کی امیدوں کو ختم کر دیا ہے۔ ہریانہ پولیس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے وقت رہتے کارروائی نہیں کی۔ اگر ہریانہ پولیس چاہتی تو نہ صرف مقتولین کو بچا سکتی تھی، بلکہ مجرمین کو بھی گرفتار کر سکتی تھی۔ لیکن جس طرح کے انکشافات ہو رہے ہیں اور پولیس کی ملی بھگت کے شواہد سامنے آ رہے ہیں، اس سے تو انصاف کی امید لگانا ہی بے معنی ہے۔ وہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق راجستھان پولیس نہ جانے کس دباؤ میں نہ صرف کلیدی ملزم کا نام ملزمین کی فہرست سے ہٹا دیا، بلکہ مقتولین کے اہل خانہ کو ہی نقض امن کے لئے نوٹس جاری کر دیا۔ خبر نگاری کرنے والوں اور سماجی کارکنان کو بھی نہیں چھوڑا۔ ایسے میں آپ انصاف کی کیا امید کر سکتے ہیں۔
مجرموں کی حمایت حیران کن
حکومت، پولیس اور انتظامیہ نے تو مایوس کیا ہی ہے، عوام کا نظریہ اور رویہ اس سے بھی زیادہ حیران کن اور تشویشناک ہے۔ ہم کیسے کسی مہذب اور انصاف پسند معاشرے سے یہ امید کر سکتے ہیں کہ عام لوگ قاتلوں اور مجرموں کی حمایت کریںگے، قانون اور پولیس کو دھمکیاں دیں گے اور تالیاں بجائیں گے۔ اس سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا ملک اور معاشرہ بہت تیزی سے تنزلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تا دم تحریر جنید اور ناصر کے قتل کے ملزمین کی حمایت میں کم از کم تین ’مہا پنچایتیں‘ ہو چکی ہیں۔
ان پنچایتوں میں اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی اور انہیں دھمکیاں تو دی ہی جا رہی ہیں، پولیس کے پیر توڑ دینے کا بھی انتباہ دیا جا رہاہے۔ پنچاتوں میں شر پسند عناصر آئین اور قانون کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں۔ ایک ہندو تنظیم کے لیڈر نے کہا کہ ’اگر راجستھان پولیس کارروائی کے لیے آتی ہے تو وہ اپنے پیروں پر واپس نہیں جا پائے گی۔ پولیس کو یقین دہانی کرانی چاہیے کہ مونو مانیسر کے خاندان کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔‘ اس کے بعد پوری پنچایت تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھتی ہے۔ تالیوں کی یہ گڑگڑاہٹ بتاتی ہے کہ پنچایتوں میں جمع ہونے والے ہزاروں افراد مجرموں کی تائید اور حمایت کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ اب ہمارے یہاں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ لیکن اس سے بالکل بے خبر کہ یہ تبدیلی ملک اور معاشرے کو کس سمت لے جا کر چھوڑے گی۔ تالیاں یہاں بھی بج رہی ہیں، تالیاں وہاں بھی بج رہی ہیں، مگر دونوں طرف تالیاں کیوں بج رہی ہیں، اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com