پیر, جون 5, 2023
Homeرائے’دھرم سنسد‘ کی اشتعال انگیزی پرسپریم کورٹ سخت اور موہن بھاگوت کے...

’دھرم سنسد‘ کی اشتعال انگیزی پرسپریم کورٹ سخت اور موہن بھاگوت کے بیانات

دھرم سنسد‘ میں اشتعال انگیزی پرسپریم کورٹ کے سخت تبصرے اور موہن بھاگوت کے بیانات میں بھلے ہی کوئی مماثلت نہیں، مگر۔۔۔
ع۔ اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں

آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا ایک انٹرویو ان دنوں موضوع بحث ہے۔ انھوں نےیہ انٹرویو آر ایس ایس کے ہی ترجمان ہفت روزہ ’آرگنائزر‘ کو دیا ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے بہت سے موضوعات پر بات کی ہے، لیکن مذہبی امور، ہندو اور مسلمانوں کے حوالے سے انھوں نے جو باتیں کی ہیں، وہ قابل غور ہیں۔ اگرچہ اس مضمون میں ’دھرم سنسد‘ میں اشتعال انگیزی پر سپریم کورٹ کے تبصروں پر گفتگو کرنا ہے، بھاگوت کے انٹرویو پر نہیں، مگر ان کی باتوں کو وسیع تناظر میں دیکھیں تو ان کے تار بھی وہیں جا کر ملتے ہیں۔ کیوں کہ بھاگوت نے کچھ باتیں تو براہ راست کی ہیں، لیکن بہت سی باتوں میں کچھ پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔

جیسے بھاگوت نے کہا ہے کہ ہندو سماج تقریباً ایک ہزار سال سے حالت جنگ میں ہے۔ غیر ملکی لوگ، غیر ملکی اثر و رسوخ اور غیر ملکی سازشیں، ان سے جنگ جاری ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ اگر آپ لڑنا چاہتے ہیں تو آپ کو عزم کرنا ہوگا۔ ہندو مذہب، ہندو ثقافت، ہندو سماج کی سلامتی کا سوال ہے، اس کے لیے لڑائی جاری ہے۔ اس لڑائی میں لوگوں میں ’کٹرتا‘ یا سخت گیری آئے گی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، پھر بھی اشتعال انگیز بیانات آئیں گے۔ بھاگوت نے ان چند جملوں میں ہی اپنے لوگوں اور دوسرے لوگوں کو ایک پیغام دے دیا ہے۔ اپنے لوگوں کو جو پیغام دیا ہے، شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ’دھرم سنسد‘ جیسے پروگرام کھلے عام کئے جا رہے ہیں، ان میں ایک فرقہ کے خلاف زہر افشانی کی جا رہی ہے، لوگوں کو حلف دلایاجا رہا ہے، مارنے کاٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں، پھر بھی کسی کے خلاف کوئی کارروالی نہیں ہو رہی ہے۔

ملک میں فرقہ وارانہ فسادات

نتیجتاً سپریم کورٹ کو سخت تبصروں کے ساتھ پولیس کی سرزنش کرنی پڑ رہی ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں بار بار اس کے ثبوت بھی ہمارے سامنے آتے رہے ہیں اور ملک کا ماحول بھی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ حالات سازگار نہیں ہیں۔ خود مرکزی حکومت نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے پارلیمنٹ کو بتایا کہ 2017ء سے 2021ء کے درمیان ملک میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کے 2900؍ سے زیادہ واقعات درج کئے گئے۔ این سی آر بی کے ذریعہ مختلف گروپوں، ہجوم یا ہجوم کے ذریعہ ہلاک یا زخمی ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی علیحدہ ڈیٹا جمع نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ اعداد و شمار حالات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔


اگست 2021ء اور دسمبر 2021ء میں دہلی اور ہری دوار میں ’دھرم سنسد‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں کھل کر مسلمانوں کے قتل عام کی بات کی گئی۔ ہندو یووا واہنی کے پروگرام میں سدرشن ٹی وی کے سریش چوہانکے نے وہاں موجود لوگوں کو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے قتل عام کا حلف دلایا تھا۔ اسی دوران ہری دوار میں بھی یتی نرسنگھا نند اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے خلاف اکثریتی طبقہ کو ہتھیار اٹھانے کیلئے اکساتے ہوئے زبردست زہرافشانی کی تھی۔ اس کے ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئے۔ ملک کے ایک طبقہ نے اپنی فکرمند کا اظہار بھی کیا، نفرت کے سوداگروں کو روکنے اور ان پر کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔اس کے باوجود تقریباً چھ ماہ کے بعد پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ پولیس کی سختی اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ان کے سامنے ایک فرقہ کے لوگوں کو مارنے کاٹنے کی باتیں کی جاتی رہیں، اور وہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی میں ہوئی ’دھرم سنسد‘ کے معاملے میں 2022ء میں سپریم کورٹ کی سخت نصیحت کے باوجود دہلی پولیس نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔

سپریم کورٹ کا دہلی پولیس کے جواب پر مایوسی کا اظہار

پچھلے سال اپریل میں سپریم کورٹ نے دہلی پولیس سے کہا تھا کہ وہ عدالت کے سامنے ایک بہتر حلف نامہ پیش کرے۔ سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کے جواب پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ عدالت کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا تھا جب ایک ہفتہ قبل دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ دہلی میں منعقدہ ’دھرم سنسد‘ میں کسی بھی فرقہ کے خلاف کوئی اشتعال انگیز بیان نہیں دیا گیا ہے۔

دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اس نے الزامات کی اچھی طرح سے جانچ کی اور’ دھرم سنسد‘ کے ویڈیو اور دیگر مواد کو دیکھا اور پایا کہ کسی بھی کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی۔ جب پولیس پہلے ہی اشتعال انگیزی اور قتل و غارت گری کی باتیں کرنے والوں کو کلین چٹ دے رہی ہے تو پھر اس سے کیسے ان کے خلاف کسی کارروائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی ابھی تک صرف تبصروں سے ہی کام لیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عدالت عظمی نفرت کے ان سوداگروں کے خلاف براہ راست کارروائی کا حکم دے، ساتھ ہی نفرت پھیلانے میں ان لوگوں کا ساتھ دینے والے میڈیا کے اُس طبقہ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرے جو دن رات زہریلے اور فرقہ وارانہ مباحثوں کے ذریعہ ملک میں منافرت کو ہوا دے رہے ہیں۔

نفرت پھیلانے والوں پر قدغن لگانا ہوگا

سپریم کورٹ نے خاص طور پر ملک کی راجدھانی دہلی میں منعقد ’دھرم سنسد‘ میں نفرت انگیز تقاریر کے معاملے میں ایک بار پھر دہلی پولیس کی نا اہلی اور اب تک کی کارروائی پر سنگین سوال اٹھائے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس سخت رویے کے بعد دہلی پولیس میں کیا تبدیلی آتی ہے، دیکھنا ہوگا۔ عدالت نے اپنے سوالوں اور رویے کے ذریعے اتنا تو صاف کیا ہے کہ وہ ’دھرم سنسد‘ میں کی گئی اشتعال انگیزی سے آنکھیں نہیں موند سکتا۔ پولیس کو اس معاملے میں کارروائی کرنی ہوگی اور نفرت پھیلانے والوں پر قدغن لگانا ہوگا۔ چیف جسٹس کی بنچ نے دھرم سنسد کے معاملے میں اب تک کوئی ٹھوس کارروائی نہ کرنے پر دہلی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے خلاف توہین عدالت کا کیس چلانے کی اپیل پر شنوائی کرتے ہوئے دہلی پولیس سے نہایت سخت انداز میں پوچھا کہ دھرم سنسد 19؍ دسمبر 2021ء کو ہوئی تھی، لیکن ایف آئی آر 5؍ ماہ بعد کیوں درج کی گئی؟ اس تاخیر کی وجہ بتانے کی زحمت دہلی پولیس کے افسران کریں گے یا پھر ہم سبھی کو ایک ایک کرکے عدالت میں طلب کرلیں۔

اس کے علاوہ عدالت نے پوچھا کہ ایف آئی آر درج ہونے کے 8؍ ماہ بعد بھی تفتیش میں کوئی پیش رفت کیوں نظر نہیں آرہی ہے؟ تفتیش کہاں تک پہنچی، ہمیں اس کے بارے میں بتایا جائے۔ عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ اس معاملے میں کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا؟ اور کتنے لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے؟ اس کی تفصیل بھی فراہم کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے تفتیشی افسر سے دو ہفتوں میں اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے کہ اس معاملے میں اب تک کیا اقدامات کئے گئے ہیں، عدالت کو بتایا جائے؟ عدالت کے اس رویے سے دہلی پولیس اور اس کے وکیل حیران تھے۔

سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی عرضی

یہی وجہ ہے کہ وہ چیف جسٹس کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی یہ عرضی تشار گاندھی کی جانب سے داخل کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے دہلی پولیس اور اتراکھنڈ حکومت سے 2؍ ہفتوں میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ سماعت کے دوران اتراکھنڈ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ اس نے اپنا جواب داخل کر دیا ہے اور معاملے کی سماعت کرنے والی دوسری بنچ کے پاس وقت پر جواب اور کارروائی رپورٹ داخل کر دی تھی۔ غور طلب ہے کہ 10؍ اکتوبر 2022ء کو سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت اور دہلی پولیس سے حقائق پر مبنی موقف اور کارروائی کے بارے میں حلف نامہ طلب کیا تھا۔ ساتھ ہی تشار گاندھی کی توہین عدالت کی عرضی پر بھی معلومات مانگی گئی تھی۔ بہر حال، سپریم کورٹ نے جو رویہ اختیار کیا ہے، اس سے امید ہے کہ اب نفرت پھیلانے والوں پر لگام لگے گی۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے جب کچھ عملی اقدامات سامنے آئیں۔ ورنہ بقول شاعر ؎

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments