طالبان حکومت کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کیا مذہب اسلام کے اُس حکم سے متصادم ہے جس میں حصول علم پر ہر ممکن زور دیا گیا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری۔۔۔۔۔۔
سیریا کی ایک نوجوان خاتون کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے۔ دو منٹ سے بھی کم وقت کے اس ویڈیو نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو متوجہ کیا ہے۔ ’العربیۃ‘ کے مطابق اس ویڈیو پر لوگوں نے جذباتی تبصرے لکھے اور کہا کہ اس ویڈیو نے انہیں آبدیدہ کر دیا۔ اس ویڈیو میں جو کچھ دیکھا اس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ تقریباً 20؍ سالہ لڑکی رزان یوسف سلیمان یونیورسٹی کا گریجویشن گاؤن اور سر پر کالی ٹوپی پہنے ہوئے ہے۔ رزان کے بائیں ہاتھ میں سفید گلابوں کا گلدستہ ہے، دائیں ہاتھ میں ایک سرٹیفکیٹ ہے۔ اس نے المدینہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ایجوکیشن سے فراغت حاصل کی ہے۔ اس کے بعد کا منظر جذباتی نوعیت میں بدل جاتا ہے۔
رزان یوسف سلیمان اپنے والد کے سبزیاں فروخت کرنے والے خیمے میں آتی ہے۔ پہلے وہ انھیں گلدستہ پیش کرتی ہے، پھر ساتھ میں ایک کیک بھی لاتی ہے، جس پر والد کی تعریف میں خوبصورت جملہ لکھا ہے۔ رزان والہانہ انداز میں اپنے والد سے گلے ملتی ہے۔ ابو خضر اپنی بیٹی کو پدرانہ شفقت سے گلے لگاتے ہیں۔ اسی بازار میں موجود باقی لوگ باپ اور بیٹی کی اس خوشی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ رزان اپنے والد سے سبزی منڈی میں ان کی دکان پر ہی ملنا چاہتی تھی، تاکہ اپنی کامیابی کو ان کے ساتھ فخر اور اعزاز کے ساتھ منا سکے۔ اب شام سے دور افغانستان کی طرف آتے ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی
افغانستان میں طالبان حکومت نے یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس حکم کے تحت خواتین کے لیے اعلی تعلیم تک رسائی روکی گئی ہے۔ افغانستان میں پہلے ہی خواتین کو اکثر سیکنڈری اسکولوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔ اب خواتین پر عائد کردہ نئی پابندیوں کے تحت وہ وٹنری سائنس، انجینئرنگ، اکنامکس اور زراعت میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں، جبکہ صحافت میں بھی ان کا جانا مشکل ہوگا۔
گذشتہ سال کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی یونیورسٹوں میں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ کلاس روم اور داخلی راستوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ طالبات کو صرف خواتین پروفیسر یا معمر مرد پڑھا سکتے ہیں۔ اب طالبان حکام نے خواتین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی کے فیصلے پر عالمی تنقید کے بعد اسے عارضی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی وجوہات واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ طالبان کے وزیر برائے اعلی تعلیم شیخ ندا محمد ندیم نےکہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں بچیوں کی تعلیم پر عارضی پابندی چند مسائل کی وجہ سے تھی۔
طالبان کے دور اقتدار میں ہمیشہ افغانستان کا تعلیمی شعبہ بُری طرح متاثر رہا ہے۔ گذشتہ سال امریکی و دیگر غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے تربیت یافتہ ادبی شخصیات ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ افغانستان اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کئی ماہ سے اپنی تنخواہوں کے منتظر ہیں۔ حالانکہ اقتدار میں واپسی کے وقت طالبان نے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ اس مرتبہ ان کی طرز حکمرانی میں تبدیلی دیکھنے کی ملے گی۔ مگر اب افغان شہریوں میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ طالبان نے انھیں مایوس کیا ہے اور ان کے اندر کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔
تعلیم میں مرد اور خواتین کے لئے یکساں حکم
ان لوگوں کا ماننا ہے کہ موجودہ حکومت آزادانہ سوچ، خواتین اور بچوں کے بنیادی حقوق کو اہمیت نہیں دیتے۔ وہ سب کو قابو میں رکھنے کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔ حالانکہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں سینئر رہنما ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ وہ خواتین کو ملازمت اور تعلیم کی اجازت دیں گے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ایک اسلامی ریاست ہیں اور افغانستان میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں تعلیم پر کتنا زور دیا گیا ہے اور اس میں مرد اور خواتین کے لئے یکساں حکم ہے۔
مذہب اسلام کو تو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ حصول علم پر ہر ممکن زور دیتا ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر بلاواسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ پھر مذہب اسلام مرد کی طرح عورت کے لئے بھی تعلیم کا حصول لازم قرار دیتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘ قرآن حکیم میں اس دعا کی اہمیت واضح ہے: رَبِّ زِدنِیْ عِلْما۔’اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو حصول علم کی رغبت و تعلیم دی گئی ہے۔
عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام
روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے مردوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام فرمایا ہے۔ حقیقت میں تو تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہو کر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے، مگر افسوس کچھ لوگ خواتین کی تعلیم کے تعلق سے غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے اور یہ بھی کہ عورتیں اگر گھر کی زینت ہیں تو انھیں تعلیم کی ضرورت نہیں، جبکہ علم تو وہ روشنی ہے جو انسان کو جینا سکھاتی ہے۔
تاریخ اسلام میں تو با علم اور با صلاحیت خواتین کی روشن تاریخ رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم خواتین کی ہمت و جرأت اور تدبر و فراست سے بڑے بڑے انقلابات ظہور پزیر ہوئے۔ بدقسمتی سے اسلامی تعلیمات کی ادھوری تفہیم اور معاشرتی رسوم و رواج میں خلط ملط کرنے کے باعث خواتین کو ماضی میں علوم کے ذرائع تک رسائی کا آزادانہ حق حاصل نہیں رہا۔ جس کی وجہ سے وہ نسل در نسل زیور تعلیم سے محروم رہیں۔ آج طالبان بھی وہی کام کرے ہیں۔
مذہب اسلام نے عورت کو مرد کے برابر مقام و مرتبہ عطا فرماکر اس کی حیثیت متعین کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا کے ساتھ بین الاقوامی مسلم تنظیموں، اداروں اور اسلامی ممالک نے بھی طالبان کے حالیہ فیصلے کی مذمت کی ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے واضح پیغام شیخ الازہر احمد الطیب نے دیا ہے۔
جامعہ الازہر افغان لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے ناراض
اس پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ ’افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنے کا فیصلہ شریعت سے متصادم ہے۔ جامعہ الازہر کو افغان لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنے کے لیے افغان حکام کے فیصلے پر شدید افسوس ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو اسلامی قانون کے خلاف ہے۔ مردوں اور عورتوں کو مہد سے لے کر لحد تک علم حاصل کرنے کے واضح مطالبے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اسلام کی دعوت نے سائنسی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں باصلاحیت خواتین میں عظیم ذہن پیدا کیے ہیں اور یہ آج بھی ہر اس مسلمان کے لیے باعث فخر بات ہے جو اللہ اور رسول اور شریعت کا وفادار ہے۔ اس فیصلے کے ماخذوں سے اہل سنت کی مستند ترین کتابوں میں موجود دو ہزار سے زائد احادیث کیسے چھوٹ گئیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مومنین کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہیں؟ یہ لوگ سائنس، تعلیم، سیاست اور اسلامی معاشروں کے عروج و زمانہ، ماضی اور حال کے میدانوں میں پیش پیش خواتین اور مردوں کی مسلمانوں کی تاریخ کو کیسے بھول گئے؟‘
سعودی عرب کا بھی اظہار افسوس
سعودی عرب نے بھی طالبات کی یونیورسٹی تعلیم تک رسائی معطل کرنے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پابندی کو واپس لیں۔ طالبان کی جانب سے خواتین کی جامعہ کی سطح پر تعلیم پر پابندی افغان خواتین کو ان کے مکمل قانونی حقوق دینے کے منافی ہے۔ ان میں سب سے اہم تعلیم کا حق ہے، کیونکہ تعلیم ہی افغانستان اور اس کے برادر لوگوں کے لیے سلامتی، استحکام، ترقی اور خوش حالی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ترکیہ نے طالبان پر افغان خواتین کے اعلیٰ تعلیم پر پابندی کا فیصلہ واپس لینے پر زور دیتے ہوئے اسے غیر اسلامی اور غیرانسانی فعل قرار دیا ہے۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو درست نہیں سمجھتے، خواتین کی تعلیم سے انسانیت کو کیا نقصان پہنچتا ہے؟
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com