ذرائع کے مطابق اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح نوئیڈا میں آخری سانس لی۔ بڑا بیٹا پونہ میں پروفیسر ہے جبکہ چھوٹا بیٹا پائلٹ ہے، بیٹی نوئیڈا میں ہی اپنا این جی او وغیرہ چلاتی ہے
پٹنہ: ساتویں دہائی کے مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا نوئیڈا میں بیٹی کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا وہ ایک عرصے سے بیمار تھے اور لیور کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے ان کی عمر تقریباً 77 برس تھی پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں ان کی تدفین نوئیڈا میں ہی کردی گئی۔
ذرائع کے مطابق اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح نوئیڈا میں آخری سانس لی۔ بڑا بیٹا پونا میں پروفیسر ہے جبکہ چھوٹا بیٹا پائلٹ ہے ۔ بیٹی نوئیڈا میں ہی اپنا این جی او وغیرہ چلاتی ہے۔
شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں پیدا ہوئے تھے۔ سول انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور حکومت بہار کے شعبہ پبلک ہیلتھ انجینیرنگ میں چیف انجینئیر کے عہدے سے ریٹایر ہوے۔ انہیں بہترین فکشن نگاری کے لیے عالمی فروغ اردو ادب دوحہ، قطر 2012 کے انعام سے نوازہ گیا ہے.
مسٹر شموئل پٹنہ کے پاٹلی پترا میں مقیم ہوگئے۔ انہیں بچپن ہی سے ادبی ذوق رہا ہے چھٹی ساتویں جماعت ہی سے طبع آزمائی کرنے لگے لیکن باضابطہ اشاعت کا سلسلہ 1970ء کے آس پاس شروع ہوا جو چار پانچ سال تک چلتا رہا۔ اس کے بعد چار پانچ سال تک خاموشی رہی، اس کے بعد پھر لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری تھا۔
اردو افسانے
اب تک ان کی تیس کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ بگولے، 1988ء میں شائع ہوا۔ وہ دو جنس کی نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں ساتھ ہی ساتھ استحصال اور جبروتشدد کی عکاسی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ذات کی تلاش میں بھی گم ہوجاتے ہیں۔ وہ آج کے نظام ہی کو استحصال اور کرپشن کی وجہ بتاتے ہیں چونکہ ان کا تعلق صحافت سے بھی ہے اس لئے زبان و بیان پر بہت حد تک گرفت مضبوط ہے۔ 1980 کے بعد اردو افسانے نے پھر افسانوی رنگ اختیار کیا ہے اس سے وہ بہت خوش تھے حالانکہ وہ خود بھی کچھ کہانیوں میں تجربے کے شکار ہوگئے ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی کہانیاں لکھتے تھے وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
سنگھار دان جیسی کہانی کے خالق شموئل احمد اپنے منفرد اسلوب اور بے باک لہجے کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کے ہر افسانے میں ایک نیا تجربہ اور نئی حسسیت کار فرما نظر آتی ہے۔
شموئل صرف جنس کی نفسیات پر ہی گہری نظر نہیں رکھتے بلکہ عصری اور سیاسی مسائل کو تمام پختگی سے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کا دلکش اسلوب فنی رویہ اور تخلیقی مزاج انہیں اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے۔ ‘عنکبوت، اونٹ، ظہار اور سنگھار دان’ جیسی کہانیاں شموئل کے قلم سے ہی نکل سکتی تھیں۔ شموئل احمد کو علم نجوم سے گہرا شغف تھا۔ انہوں نے علم نجوم کی اصطلاحوں کا بہت تخلیقی اظہار ‘مصری کی ڈلی’ چھگمانس’ اور القمبوئس کی گردن’ جیسی کہانیوں میں کیا ہے۔ شمویل ہندی زبان میں بھی یکساں قدرت سے لکھتے ہیں۔
شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ
شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ انگریزی کی علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ پنجابی میں ان کے نمائندہ افسانوں کا انخاب ‘ مرگ ترشنا ‘ شائع ہوا۔ شموئل ٹیلی اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں۔ ان کی کہانی ‘ آنگن کا پیڑ ، کاغذی پیراہن اور مرگ ترشنا پر ٹیلی فلمیں بن چکی ہیں جس کی اسکرپٹ شمویل نے ہی لکھی. . ان کا ناول ‘ندی’ پینگوئن اردو نے شائع کیا ہے۔
حال میں ہی اس ناول کا انگریزی ترجمہ River جرمنی سے شائع ہوا ہے۔ ان کی کہانی ‘سنگاردان’ کا انگریزی ترجمہ ہارپر کولنز کے ذریعہ شائع ہوا، اور ابھے کمار کے ذریعہ ترمیم شدہ بہاری ادب کی کتاب میں شامل ہے۔ جرمنی سے ہی انگریزی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ‘ Dressing Table The کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کی یوروپ میں بہت دھوم ہے۔ شموئل احمد کا دوسرا ناول ‘مھاماری’ اردو کے اھم سیاسی ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ شموئل صف اول کے مترجم بھی ہیں۔ ساہتیہ اکاڈمی کے اصرار پر گجراتی ناول کنواں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے؛ میں۔ 1. بگولے 2سنگھار دان، 3 القمبوس کی گردن. 4 عنکبوت ناول؛مھاماری۔5. ندی شامل ہیں۔