ہفتہ, جون 3, 2023
Homeرائےکانگریس اور مسلمان: تین ریاستوں کے انتخابی نتائج کے تناظر میں

کانگریس اور مسلمان: تین ریاستوں کے انتخابی نتائج کے تناظر میں

تین ریاستوں کے انتخابی نتائج تین سیاسی جماعتوں کے حق میں آئے ہیں، ساتھ ہی کانگریس اور مسلمانوں کے لئے ایک خاص پیغام بھی دیا ہے

تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری

حال ہی میں تین ریاستوں میں انتخابات ہوئے ہیں۔ ان انتخابات پر سبھی کی نظریں مرکوز تھیں۔ ان میں دو ریاستوں گجرات اور ہماچل پردیش کی اسمبلیوں کے لئے انتخاب ہوئے، جبکہ دہلی میں کارپوریشن کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ انتخابی سیاست میں یوں تو ہر انتخاب کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، مگر یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت اور رائے دہندگان کا کون سا طبقہ ان کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ دہلی، گجرات اور ہماچل پردیش کے انتخابی نتائج نے اس پہلو کو بہت حد تک واضح کر دیا ہے۔

دہلی میں جہاں عام آدمی پارٹی نے کارپوریشن میں بی جے پی کے 15 سالہ تسلط کو ختم کیا، وہیں گجرات میں 27 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی بی جے پی نے جیت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ ہماچل پردیش کی روایت رہی ہے کہ یہاں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار تبدیل ہوتا ہے۔ لہذا یہاں کانگریس نے اپنے سب سے خراب دور میں بھی کامیابی حاصل کی ہے، اس لئے وہ مبارکباد کی مستحق تو ہے، مگر اس کامیابی کا اصل سہرہ ریاست کے عوام کے سر جاتا ہے۔

کانگریس اور مسلمانوں کے لیے خاص پیغام

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تین ریاستوں کے انتخابی نتائج تین سیاسی جماعتوں کے حق میں آئے ہیں۔ ساتھ ہی ان نتائج نے کانگریس اور مسلمانوں کے لئے ایک خاص پیغام بھی دیا ہے۔

کانگریس کے لئے یہ پیغام ہے کہ اگر اس کے لیڈران نے انتخابات کے دوران اپنا یہی رویہ برقرار رکھا تو شکست در شکست کا سلسلہ توڑنے میں اسے کامیابی نہیں ملے گی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے پیغام یہ ہے کہ اب اگر انھوں نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا اور اسی طرح منتشر رہے تو ان کے ووٹ بالکل بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے اور کوئی بھی سیاسی جماعت ان کو کوئی اہمیت نہیں دے گی۔

دہلی اور ہماچل پردیش کے انتخابی نتائج تو حسب توقع ہی رہے ہیں، مگر گجرات کے نتائج نہ صرف حیران کن بلکہ کانگریس اور مسلمانوں کے لئے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ 27؍ سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی بی جے پی کا ریکارڈ جیت درج کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔

جبکہ الیکشن سے پہلے کہا جا رہا تھا کہ گجرات کے حالات اس مرتبہ بی جے پی کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی نے وہ کر دکھایا جس کی توقع کسی نے نہیں کی تھی۔ شدید اقتدار مخالف لہر کے باوجود وہ ریاست کی 182؍ میں سے 156؍ اسمبلی سیٹیں جتنے میں بی جے پی کامیاب ہو گئی۔ جبکہ کانگریس کی کارکردگی گجرات کی تشکیل سے لے کر اب تک کے 42 سال میں سب سے خراب رہی ہے۔ وہ حکومت مخالف لہر کا فائدہ اُٹھانے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی۔

بی جے پی کی کامیابی حیران کن

کانگریس کو اب بی جے پی سے سیکھ لینا چاہئے کہ وہ کس طرح چھوٹے سے چھوٹا الیکشن بھی بڑے سے بڑے الیکشن کی طرح لڑتی ہے۔ بی جے پی نے ہر وہ قدم اُٹھایا جس سے اسے فتح کی ضمانت مل سکتی تھی۔

انتخابی ضابطہ ٔ اخلاق نافذ ہونے سے پہلے گجرات پر سرکاری نوازشوں اور اعلانات کی خوب برسات ہوئی۔ اس کے بعد انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں سرکاری نوازشوں کی خوب زور شور سے تشہیر کی گئی۔ طاقت اور وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا، غیر معمولی توانائی صرف کی گئی اور ایسا ہر موضوع اُٹھانے کی کوشش کی گئی جس سے گجرات کے برگشتہ عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا جا سکے۔ ورنہ انتخابات سے پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ گجرات کے عوام بی جے پی سے بیزار ہو چکے ہیں۔

ریاست میں سرکاری ملازمتوں میں تقرریوں کا مسئلہ ہو، مقابلہ جاتی امتحانات کے پرچے لیک ہونے کا معاملہ ہو، موربی پل حادثہ ،جس نے 135؍ افراد کی جان لے لی، زہریلی شراب کا سانحہ جس میں 42؍ افراد فوت ہوئے، کورونا دَور کی عوامی بے بسی، کئی قسم کے آندولن اور مہنگائی، نیز بے روزگاری جیسے بحران کے باوجود بی جے پی کی کامیابی حیران کن ہے۔

کیا یہ کانگریس کی بے حسی کا نتیجہ ہے یا اس کی انتخابی عدم دلچسپی، یا پھر عام آدمی پارٹی اور دیگر جماعتوں نے کانگریس کا کھیل بگاڑ دیا؟ ان سب پہلوؤں پر کانگریس کو سوچنا بھی چاہئے اور جواب بھی دینا چاہئے۔ کانگریس کو بتانا چاہئے کہ گجرات میں شدید اقتدار مخالف لہر کا فائدہ اُٹھانے میں وہ کیوں ناکام رہی؟

گجرات اسمبلی میں پہنچنے والے واحد مسلم

گجرات کے انتخابی نتائج مسلمانوں کے تعلق سے بھی حیران کن ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 182؍ رکنی اسمبلی میں اس بار صرف ایک مسلم امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ کانگریس کے امیدوار عمران کھیڑا والا نے جمال پور کھڈیا سے بی جے پی کے امیدوار بھوشن بھٹ کو 13؍ ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ وہ اس بار اسمبلی میں پہنچنے والے واحد مسلم رکن اسمبلی ہوں گے۔

ریاست میں تقریباً 11 فیصد مسلم رائے دہندگان ہیں، لیکن صرف ایک امیدوار کامیاب ہوسکا۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ریاست کے تقریباً 11؍ فیصد مسلم ووٹر ریاست کی ایک درجن سے زائد سیٹوں پر فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 182؍ رکنی گجرات اسمبلی میں 30؍ نشستیں ایسی ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی 15؍ فیصد سے زیادہ ہے۔ جہاں مسلمان کسی بھی امیدوار کی جیت یا شکست کو یقینی بناسکتے ہیں۔ 20؍ سیٹوں پر مسلمانوں کی تعداد 20 فیصد سے بھی زائد ہے۔

تاہم ،حیران کن بات یہ ہے کہ 10؍ میں سے 8؍ مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کو جیت حاصل ہوئی، جہاں مسلمانوں کی تعداد 26؍ سے 48؍ فیصد تک ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں سہ فریقی مقابلے اور ووٹوں کی زبردست تقسیم کی وجہ سے ریاست کے مسلم اکثریتی علاقے بھی محفوظ نہیں رہ سکے۔

عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین

عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین کی زبردست انتخابی مہم نے مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنایا۔ عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین کے امیدواروں نے مسلم حلقوں کے روایتی ووٹ میں زبردست تقسیم کی، اس طرح بی جے پی ان سیٹوں پر بھی کامیاب ہوگئی، جہاں اس کا کوئی امکان نہیں تھا۔

اگر ہم مسلم امیدواروں کی بات کریں تو اس بار کانگریس، عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین نے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ دوسری طرف بی جے پی کی طرف سے کوئی مسلم امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ کانگریس نے جہاں چھ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا، وہیں مجلس اتحاد المسلمین نے 13؍ مسلم امیدوار کھڑے کئے تھے، جبکہ ’ آپ‘ نے بھی تین مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیئے تھے۔ لیکن کانگریس کے علاوہ ایک بھی کسی بھی پارٹی کا امیدوار جیت حاصل نہیں کر سکا۔ مسلمانوں نے کانگریس کے علاوہ ہر پارٹی کے مسلم امیدواروں کو تقریباً مسترد کر دیا۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات کا جائزہ

اگر ہم گزشتہ اسمبلی انتخابات کی بات کریں تو کانگریس کے تین مسلم امیدوار الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچے تھے۔ مسلم اکثریتی آبادی والی 17 سیٹوں میں سے 12؍ پر بی جے پی نے جیت درج کی ہے۔ یہ تعداد 2017ء کے مقابلے میں 6؍ زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر مسلم اکثریتی دریا پور سیٹ پر 10؍ سال سے کانگریس کا قبضہ تھا، جہاں کانگریس کے امیدوار غیاث الدین شیخ بی جے پی کے کوشک جین سے شکست کھا گئے۔ غیاث الدین شیخ کو تقریباً بی جے پی کے امیدوا رسے 6؍ ہزار ووٹوں سے شکست ملی، جبکہ اسی سیٹ پر عام آدمی پارٹی سے ایک مسلم امیدوار تاج محمد قریشی کو چار ہزار 164؍ ووٹ ملے، مجلس کے امیدوارحسن خان کو 1771؍ ووٹ ملے۔

روایتی طور پر مسلمانوں کو بی جے پی کا ووٹر نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے میں یہ بات حیران کن ہے کہ بی جے پی نے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ لہذا سوال اٹھتا ہے کہ آخر بی جے پی نے انتخابی جیت کا ایسا کیا فارمولہ تیار کیا ہے کہ اس نے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی اپنا جھنڈا لہرانا شروع کر دیا ہے۔

آخر مسلمان کس الجھن کا شکار ہیں؟ ان کے ووٹ کیوں تقسیم ہو رہے ہیں، جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوتا ہے؟ اگر یہ بی جے پی کی حکمت عملی ہے تو وہ اس میں کامیاب کیسے ہو رہی ہے؟ ان سبھی پہلوؤں پر مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گجرات کے علاوہ دہلی کے کچھ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی بی جے پی کامیاب ہوئی ہے۔

yameen@inquilab.com (مضمون نگار ’انقلاب‘ دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments