بدھ, جون 7, 2023
Homeرائےاردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ نشیب و فراز سے بھرپور

اردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ نشیب و فراز سے بھرپور

اردو صحافت کادو سو سالہ سفر بہت سے نشیب و فراز والا رہا، مگر بیش بہا قربانیوں اور صحافتی اصولوں پر چل کر ایک عظیم اور روشن تاریخ رقم کی ہے

ڈاکٹر یامین انصاری

اردو صحافت نے 27؍ مارچ 2022ء کو 200؍ سال مکمل کر لئے۔ یہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہے۔ اتنا ہی غیر معمولی اردو صحافت کا سفر بھی ہے۔ اردو صحافت نے یقیناً دو سو سال میں ایک عظیم اور شاندار تاریخ رقم کی ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اردو صحافت کی اس عظیم تاریخ میں اپنا ایک ادنیٰ سا کردار اداکر سکے۔ اگر ہم اس کے دو سو سالہ سفر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اردو صحافت نے نہ صرف اس زبان کی خدمت اور آبیاری کی ہے، بلکہ ملک و قوم کے لئے ایثار و قربانی اور جذبہ حب الوطنی کو فروغ دینے میں پیش پیش رہی ہے۔

جد و جہد آزادی سے لے کر حصول آزادی تک اور اس کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی تک اردو صحافت کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اردو صحافت نے ہمیشہ سیکولرازم، تفہیم ادیان، کثرت میں وحدت اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اردو صحافت کا کردار

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اردو صحافت کا کردار زیادہ تر سیکولر ہی رہا ہے۔ اگر آزادی سے پہلے کا دور دیکھیں تو مسلم لیگ کی حمایت میں اردو صحافی کم ہی نظر آئیں گے۔ جس وقت مسلمانوں کا ایک طبقہ مسلم لیگ سے وابستہ ہو گیا تھا، اس وقت بھی بیشتر اردو صحافی یا اخبارات، چاہے وہ کلکتہ کا آزاد ہند ہو، چاہے وہ انقلاب ہو، چاہے وہ دہلی سے الجمعیت ہو، یا لاہور سے زمیندار ہو یا دوسرے اخبارات ہوں، ان کا کردار قومی یکجہتی والا ہی رہا۔ وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ رہے، مولانا آزاد کے ساتھ رہے۔

خود مولانا آزاد کا البلاغ ہو یا الہلال، انھوں نے ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے دوران جو ذہن سازی کی، اس نے مسلمانوں کی ایک ایسی نسل تیار کی، جس نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے مولوی محمد باقر نے اپنے ’دہلی اردو اخبار‘ میں 1857ء کی بغاوت کا آنکھوں دیکھا حال پیش کرنے کی کوشش کی۔

ہندوستان کی بغاوت کو انگریز حکمرانوں نے غدر قرار دے کر ایک اشتہار چھاپا، اسے جامع مسجد کے دروازوں اور کئی نمایاں مقامات پر چسپاں کیا۔ مولوی محمد باقر نے اس اشتہار کا دندان شکن جواب دیا۔ اس طرح وہ حاکم انگریزوں کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے۔ مولوی محمد باقر کو گرفتار کیا گیا اور فرنگی جاسوسی محکمہ کے انچارج کیپٹن ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے حکم سے انہیں 16؍ستمبر 1857ء کو دہلی میں شہید کردیا گیا۔ اس طرح اردو کے پہلے صحافی نے جام شہادت نوش کیا اور حب الوطنی کے محاذ کی قربان گاہ پر اردو صحافت کے پہلے قوم پرور اور محب وطن کی قربانی ہوئی۔ بقول شاعر؎

لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا

اردو کا پہلا اخبار

ہم سب جانتے ہیں کہ اردو کا پہلا اخبار ’جام جہاں نما‘ 27؍ مارچ 1822ء کو کولکاتہ سے جاری ہوا تھا۔ اس کے مالک ہری ہردت اور مدیر سدا سکھ لال تھے۔ اس کے بعد بھی لا تعداد غیر مسلم صحافی اردو صحافت کے فروغ اور اس کو پروان چڑھانے میں پیش پیش رہے۔ اس کی ایک طویل فہرست ہے، جس پر تفصیل سے اور علیحدہ سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔

آج بھی ملک کا مقبول ترین اخبار ’انقلاب‘ ہو یا ’روزنامہ سہارا‘ یا پھر ای ٹی وی نیٹ ورک، برادران وطن اردو صحافت کے فروغ میں اپنا بھر پور تعاون پیش کر رہے ہیں۔ لہذا ہم اردو کو کسی مذہبی یا مخصوص دائرے میں قید نہیں کر سکتے۔ یہ در اصل اس ملک کی زبان ہے، اس ملک کے لوگوں کی زبان ہے، اس ملک کے ہر باشندے کی زبان ہے، یہی وہ زبان ہے جو شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک بولی اور پڑھی لکھی جاتی ہے۔ اردو صحافت کے دائرے کو بھی ہمیں اسی وسیع تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

اپنے دو سو سالہ سفر میں اردو صحافت نے کتنے نشیب و فراز دیکھے، کیسے کیسے حالات کا سامنا کیا، اردو صحافیوں نے کتنی صعوبتیں برداشت کیں، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے، ملک و قوم کی بے لوث خدمت انجام دی اور ملک کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اقدار و روایات کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔ غرض یہ کہ اردو صحافت اپنے اندر ایک روشن تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ اردو صحافت کی انہیں خدمات کے اعتراف میں ملک بھر میں پورے سال مختلف مقامات پر جشن کا سلسلہ جاری رہا۔ دہلی، کلکتہ، حیدرآباد، پٹنہ،ممبئی وغیرہ میں مختلف پروگرام منعقد کئے گئے۔

اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن

اس سلسلے میں 30؍ مارچ 2022ء کو دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ملک کی مقتدر اور معتبر شخصیات نے اردو صحافت کی خدمات کا اعتراف کیا۔ اسی طرح مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ اردو صحافت کا دو سو سالہ جشن منایا۔

دہلی میں واقع غالب اکیڈمی نے بھی اسی سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ مختلف یونیورسٹیوں، اداروں اور تنظیموں کے زیر اہتمام بھی مختلف پروگرام اور سیمینار وغیرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اخبارات، رسائل اور جرائد میں لاتعداد مضامین قلم بند کئے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ان میں سب سے پر وقار اور اہم تقریب حال ہی میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت نے منعقد کی۔

اس میں ملک بھر سے نہ صرف اردو صحافیوں کو شامل کیا گیا، بلکہ دیگر زبانوں کے اہم ترین صحافیوں نے بھی شرکت کرکے نہ صرف اردو اور اردو صحافت پر تبادلہ خیال کیا، بلکہ مجموعی طور پر اردو صحافت کے ’ماضی ، حال اور مستقبل‘ اور موجودہ دور میں صحافت کے کردار پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔

اُردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ

’کاروانِ اُردو صحافت‘ کے عنوان سے 13، 14؍ اور 15؍ نومبر کو منعقد سہ روزہ عالمی جشن اُردو صحافت میں ملک بھر کے سنجیدہ، فعال، وسیع تجربے کے حامل اور صحافت کو صحافتی معیارات پر برتنے والے اہل علم و قلم کی گفتگو نے اس جشن میں چار چاند لگا دئیے۔ سبھی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اُردو صحافت کی دو سو سالہ تاریخ واقعی ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے اور شجاعت و قربانی کی مثال قائم کرنے والی تاریخ رہی ہے۔

اگر ہم دیکھیں تو زندگی کا کوئی بھی شعبہ صحافت کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ اردو صحافت نے بھی ملک اور زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ یہ اردو صحافت ہی ہے جس نے ہمیشہ حقیقی تناظر میں حق اورسچ کو پیش کرنے کو ہی ترجیح دی، جو دراصل حقیقی صحافت ہے۔

باشعور سماج کی تعمیر صحافت کی اہم ذمہ داری ہے، معاشرے کو ظلم و استبداد کے اندھیروں سے نکال کر روشنی سے متعارف کرنے کا نام ہے صحافت ہے، صحافت قوموں کی فکر سازی اور نظریاتی تبدیلی میں ایک کارگر وسیلے کا کام کرتی ہے، قوموں کے عروج و زوال میں صحافت کا اہم رول ہوتا ہے، عوامی ذہن سازی اور فکر سازی میں صحافت کا کردارنا قابل فراموش رہا ہے۔ معلومات پہنچانے میں حقیقت بیانی ،سچ جھوٹ، صحیح غلط، خبر کے تمام ممکنہ زاویوں اور امکانات پر روشنی ڈالنا صحافت کا خاصہ ہوتا ہے۔

دو سو سالہ تاریخ میں اردو صحافت

اپنی دو سو سالہ تاریخ میں اردو صحافت نے ان تمام رموز و نکات کا خیال رکھا اور صحافت کے ان اصولوں کو کبھی پامال نہیں ہونے دیا۔ آج بھی جبکہ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ نفرت کا آتش فشاں بن چکا ہے، نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ اس کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اسلاموفوبیا سے متاثر ہو کر میڈیا میں جھوٹ اور پروپیگنڈہ پر مبنی خبریں چلائی جا رہی ہیں اور بے بنیاد کہانیاں سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہیں۔ یہی نہیں، کبھی مبینہ ’لو جہاد‘، کبھی ’یوپی ایس سی جہاد‘ اور کبھی ’کورونا جہاد‘ جیسے عنوانات سے مباحثے ہورہے ہیں ۔ لہذا ایسے حالات میں جب موجودہ میڈیا اپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہے اردو صحافت اپنا منصبی کردار اور فرض ادا کرکے صحافت اور ملک کی خدمت میں مصروف ہے۔
بقول افتخار عارف ؎

وقت شاہد ہے کہ ہر بیعت فاسق کے خلاف
خط تنسیخ جو کھنچتا ہے، وہ ہم کھینچتے ہیں

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments