بدھ, جون 7, 2023
Homeعالمیانڈونیشیا میں منعقد جی 20 اجلاس حسب روایت نشستن، گفتن، برخاستن

انڈونیشیا میں منعقد جی 20 اجلاس حسب روایت نشستن، گفتن، برخاستن

انڈونیشیا میں منعقد جی 20؍ ممالک کا اہم اجلاس بھی حسب روایت ’نشستن، گفتن، برخاستن‘ تک ہی محدود رہا

ڈاکٹر یامین انصاری

دنیا میں قیام امن کے مقصد سے 24؍ اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ اقوام متحدہ کے منشور یا چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام بحال کریں گے اور انسانی اقدار کی قدرومنزلت کریں گے۔ مرد و عورت کے حقوق برابر ہوں گے اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ معاہدوں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔ لہذا یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔ ہمسایوں سے پر امن زندگی بسر کریں۔

شروع میں اقوام متحدہ کے صرف 51؍ ممبر تھے، بعد میں ان میں اضافہ ہوتا گیا۔ موجودہ وقت میں اس کے 193؍ رکن ممالک جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کل پندرہ ارکان ہوتے ہیں، جن میں سے پانچ مستقل ارکان جو فرانس، روس، برطانیہ، چین اور امریکہ ہیں اور ان کے پاس کسی بھی معاملہ میں رائے شماری کو تنہا رد یعنی ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔

اقوام متحدہ کے علاوہ بھی بہت سے عالمی ادارے، گروپس اور تنظیمیں ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ان کا قیام بھی دنیا میں امن اور تحفظ، بھائی چارہ، ہمسایوں اور قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات، ترقی و خوشحالی اور عالمی سطح پر اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کی بہتری کے لئےگتھیوں کو سلجھانا ان کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔

اب ذرا ہم اقوام متحدہ کے قیام سے اب تک رکن ممالک، بالخصوص سلامتی کونسل کے ممبر ممالک جن پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو حالات اس کے بر عکس نظر آئیں گے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر میں بہت سارے کام ہو رہے ہیں، لیکن یہ ادارہ دنیا میں ہونے والے کئی اہم انسانی المیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔

اسی طرح ایک تنظیم جی 20؍ ہے۔ اس میں دنیا کے 19؍ ممالک شامل ہیں، جبکہ یورپی یونین کو ایک ملک کے طور پر اس میں شامل کرکے اسے ’جی20؍ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جی 20؍ دنیا کی بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے، جو 80؍ فیصد جی ڈی پی پر مشتمل ہے۔ جی 20؍ کا مقصد عالمی معیشت کے حوالے سے بنیادی امور پر تبادلہ خیال کرنا اور دنیا کو درپیش معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ اس کے اراکین میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کناڈا، چین، فرانس، جرمنی، ہندوستان، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، ہسپانیہ، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یہ گروپ بھی کس حد تک اثر انداز رہا ہے یا مسائل کو حل کرنے میں کامیاب رہا ہے، یہ بھی سب کے سامنے ہے۔

حال ہی میں انڈونیشیا کے ساحلی سیاحتی شہر بالی میں جی 20؍ کا سالانہ سربراہی اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہوا جب یوکرین پر روس کے حملے جاری ہیں۔ دونوں ہی ممالک جی 20؍ میں شامل ہیں۔ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ ایک بڑے مسئلے کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ یہاں تک کہ اس جنگ کے عالمی جنگ میں تبدیل ہو جانے کے خطرات عالمی سطح پر برقرار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دنیا کے تقریباً سبھی اہم ممالک کے اس اجلاس میں اس مسئلہ کا کوئی ٹھوس اور پائیدار حل نکالنے کی کوشش کی جاتی، مگر حسب سابق یہ اجلاس بھی نشستن، گفتن، برخاستن تک ہی محدود رہا۔

اس اجلاس میں اجتماعی طور پر ایسا کوئی فیصلہ تو نہیں ہونا تھا جس کے اثرات عالمی سیاست و معیشت پر پڑتے، اس کے باوجود عالمی رہنمائوں کی باہمی ملاقات اور براہِ راست تبادلۂ خیال پر پوری دُنیا کی نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ یوکرین بحران تھا۔ امریکہ کی کوشش بھی تھی کہ اس اجلاس میں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی جائے، مگر امریکہ اِس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ عالمی سطح پر روس یوکرین جنگ پر تشویش کا اظہار تو کیا جارہا ہے، لیکن کھلے الفاظ میں کوئی بھی ملک روس کی مذمت کرنے کو تیار نہیں ہے۔

اسی طرح امریکہ چاہتا ہے کہ روس کا معاشی بائیکاٹ کیا جائے، بالخصوص روس سے تیل اور گندم کی خریداری پر پابندی عائد کر دی جائے، تاکہ روس پر دبائو بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے یورپی ممالک بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین جنگ نے عالمی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں، بالخصوص توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی سے امریکہ اور یورپ کے باشندے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اس جنگ کے حوالے سے چین نے جہاں روس کی مذمت سے گریز کیا ہے، وہیں کھلی حمایت بھی نہیں کی ہے۔

اس جنگ کی وجہ سے چین اور امریکہ کی سرد جنگ سے معاملات روس اور امریکہ کش مکش میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ روسی صدر ولادیمر پوتن نے جی 20 اجلاس میں شرکت نہیں کی، حالانکہ روسی وفد کی قیادت وزیر خارجہ نے کی۔ یوکرین کے صدر زیلینسکی بھی اجلاس میں شامل نہیں ہوئے، مگر انھوں نے اجلاس کو آن لائن خطاب کیا۔ کل ملا کر اگر ہم دیکھیں تو اس اجلاس کا اہم واقعہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات رہی۔ ایک طرف جہاں چینی صدر سے ملاقات سے قبل امریکی صدر مستقل چین کے عزائم کے خلاف باتیں کرتے رہے تھے۔ پھر بھی چین اور امریکہ کے درمیان جاری تناؤ کے باوجود دونوں سربراہوں کے درمیان ملاقات ہوئی۔

وہیں دوسری جانب اس اجلاس نے تقریباً 20؍ ماہ سے ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کی برف کو پگھلنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ وزیر اعظم مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ نے اجلاس کے دوران عشائیہ کی میز پر ملاقات کی اور گفتگو کی۔ اگرچہ یہ پہلے سے طے شدہ ملاقات نہیں تھی، محض غیر رسمی ملاقات تھی، مگر دونوں رہنماؤں نے خوشگوار ماحول میں تقریباً تین چار منٹ تک بات کی۔

دونوں کے درمیان 24؍ ماہ بعد یہ پہلی روبرو ملاقات تھی، جو کیمروں میں قید ہوئی۔ اس سے قبل مودی اور جن پنگ ستمبر 2022ء میں بھی سمرقند میں ایک ساتھ تھے، لیکن ان کے درمیان کسی ملاقات یا بات چیت کی کوئی تصویر سامنے نہیں آئی۔ بالی سے پہلے، دونوں رہنماؤں نے نومبر 2019ء میں برازیلیا میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر دو طرفہ ملاقات کی تھی۔

تاہم اس کے بعد پہلے کورونا اور پھر مشرقی لداخ میں سرحدی کشیدگی نے دونوں رہنماؤں کے درمیان براہ راست رابطے کا راستہ بند کردیا۔ یہی نہیں، جون 2020ء میں ہندوستان اور چین کے درمیان وادی گلوان تنازع اور اس میں 20؍ ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت نے بات چیت کے امکانات کو بند کر دیا۔

ویسے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سرحدی کشیدگی کے درمیان دونوں سربراہوں کی ملاقات ہوئی ہے اور رشتوں پر جمی برف پگھلنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ اس سے قبل 2017ء میں ڈوکلام سرحدی کشیدگی کے بعد دونوں رہنماؤں نے جولائی 2017ء میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میںبھی جی 20؍ کے اجلاس کے دوران ملاقات کی تھی۔

یہی نہیں، اس ملاقات کے بعد اپریل 2018ء میں وزیر اعظم مودی اور صدر شی جن پنگ کے درمیان غیر رسمی ملاقاتوں کا سلسلہ پہلے ووہان اور پھر مہابلی پورم میں آگے بڑھا۔ لیکن 2019ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ سلسلہ تقریباً تین سال سے رک گیا ہے۔

لہذا بالی میں ہوئی چھوٹی اور غیر رسمی ملاقاتوں نے یقیناً بند دروازے کھولنے میں مدد کی ہے۔ بہر حال، یہ خوش آئند ہے کہ آئندہ برس کے جی 20؍ سربراہی اجلاس کی میزبانی ہندوستان کو ملی ہے۔ ایسے میں امید کی جا سکتی ہے کہ چین، امریکہ اور روس جیسی بڑی معیشتوں کی میزبانی کرکے عالمی سطح پر ہندوستان کو اپنی پوزیشن مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ ساتھ ہی دنیا میں قیام امن میں ہندوستان اپنا اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ بقول احمد فراز؎
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

(مضمون نگارانقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow
RELATED ARTICLES

Stay Connected

1,388FansLike
170FollowersFollow
441FollowersFollow

Most Popular

Recent Comments