اگر کھڑگے کے سامنے چیلنجز زیادہ ہیں تو ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی کے پیش نظر ان کے لئے یہ وقت موزوں اور مناسب بھی ہے
تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری
حال ہی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے صدور کا انتخاب عمل میں آیا ہے۔ کانگریس سے ملکارجن کھڑگے، سماجوادی پارٹی سے اکھلیش یادو، راشٹریہ جنتا دل سے لالو پرساد یادو اور بی جے پی سے جے پی نڈا۔ فرق یہ ہے کہ کانگریس کے علاوہ دیگر جماعتوں کے صدور دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں اور یہ باضابطہ انتخاب کرواکر نہیں، بلکہ ان کے ناموں کا اعلان کرکے دوبارہ صدر بننے کی رسم ادائیگی کی گئی۔
کانگریس پر بھلے ہی کنبہ پروری یا ایک ہی خاندان کی پارٹی کا الزام لگتا رہے، مگر اس بات کا اعتراف ان کے حریفوں کو بھی کرنا چاہئے کہ کانگریس نے پورے انتخابی عمل کے ذریعہ ملکارجن کھڑگے کو اپنا صدر بنایا ہے۔ وہ میڈیا جسے عرف عام میں آج کل ’گودی میڈیا‘ کہا جاتا ہے، جو سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کے سبب کانگریس کو خاطر میں نہیں لاتا، وہ بھی اس انتخابی عمل کو اپنے یہاں جگہ دینے پر مجبور ہوا۔
کانگریس کا صدارتی انتخاب
شاید یہ پہلا موقع ہوگا جب کانگریس کا صدارتی انتخاب اس حد تک موضوع بحث بنا کہ وہ نیوز چینل بھی کسی نہ کسی زاویے سے کوریج کے لئے دوڑ پڑے جو اپوزیشن کی خبروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ باقی تینوں سیاسی جماعتوں کے صدور کے ناموں کے اعلان کی بس اطلاع دی گئی۔ اگرچہ کانگریس کے صدر کے انتخاب کے دوران جتنا ہو سکتا تھا، منفی پہلو تلاش کرکے پارٹی کی شبیہ پیش کرنے کی کوشش کی۔ خیر، کھڑگے کو ایسے وقت میں کانگریس کی کمان ملی ہے، جب ان کے سامنے چیلنج ہی چیلنج ہیں۔ ان کے صدر بننے کے بعد یہی سوال سب سے اہم ہے کہ اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی کانگریس کو کھڑگے کیسے دوبارہ اس کا کھویا ہوا وقار دلائیں گے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکارجن کھڑگے کو پارٹی صدر کا عہدہ اپنی سیاسی بصیرت، جد و جہد اور محنت کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ کانگریس کے صدارتی انتخاب کا عمل شروع ہونے سے پہلے تک ان کا نام خبروں میں نہیں تھا۔ راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت اس دوڑ میں سب سے آگے تھے۔ انھیں پارٹی صدر بنا کر کانگریس نے ایک مسئلہ حل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، مگر گہلوت ’ایک شخص ایک عہدہ‘ کی روایت پر عمل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ راجستھان کے وزیر اعلی کے ساتھ ساتھ پارٹی کا صدر بھی بن جانا چاہتے تھے۔ لیکن کھڑگے کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
ایک شخص ایک عہدہ
انھوں نے ایک شخص ایک عہدے کو قبول کیا اور عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے کانگریس کے صدرکا انتخاب لڑنے پر آمادگی ظاہر کی۔ وہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے، جو ایک اہم اور بڑا عہدہ مانا جاتا ہے۔ اس عہدہ سے استعفیٰ دینے میں اُنہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ انھوں نے اشوک گہلوت کی طرح ایک ساتھ دو عہدوں پر بنے رہنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بھی ایسے وقت میں اُنہوں نے پارٹی کے صدر کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا جب پارٹی کی صدارت کانٹوں بھرا تاج تصور کیا جا رہا ہے۔ پارٹی میں داخلی انتشار اپنے شباب پر ہے۔ انتخابی سیاست میں بار بار ناکامی ہاتھ آ رہی ہے۔ کہیں کہیں جیت کر بھی ہار جانے کی وجہ سے کانگریس کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔
کھڑگے کے سامنے گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات اہم چیلنج
حکمراں جماعت حصول اقتدار کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں اور کانٹوں بھرے راستے پر چل کر کھڑگے کانگریس کو منزل کی طرف لے جاتے ہیں، یہ دیکھنا ہوگا۔ کھڑگے کے سامنے فوری طور پر گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات اہم چیلنج ہیں۔ اس کے ساتھ ہی راجستھان میں اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے درمیان جاری رسہ کشی کو کس طرح وہ حل کرتے ہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جسے سونیا گاندھی سے لے کر راہل اور پرینکا تک سب ناکام ہو چکے ہیں۔
کھڑگے کے سامنے یہ بھی کسی چیلنج سے کم نہیں کہ 24؍ سال کے بعد ان کی شکل میں ایک غیر گاندھی صدر پارٹی کو ملا ہے۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہوگا کہ پارٹی پر گاندھی خاندان کی گرفت ہمیشہ مضبوط رہی ہے۔ لہذا کھڑگے کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ اب پارٹی پر گاندھی خاندان کا نہیں، ان کا اثرورسوخ اور ان کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ اگرچہ وہ غیر گاندھی صدر ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُنہیں گاندھی خاندان کا اعتبار حاصل ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کھڑگے پارٹی کے قدآور، تجربہ کار اور بے داغ کردار کے حامل سیاستداں ہیں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے بھی اُن کے تعلقات بہتر مانے جاتے ہیں۔ اِس وقت کانگریس جن حالات سے گزر رہی ہے، ایسے میں گاندھی خاندان کے علاوہ اگر کوئی پارٹی کو بحران سے نکال سکتا تھا، تو اس کے لئے کھڑگے سے بہتر کوئی دوسرا متبادل نظر بھی نہیں آتا ہے۔
کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے میں نئی روح
نچلی سطح پر کانگریس تنظیم کے لیے کام کرنے والے کارکنوں میں جوش و خروش کا ماحول پیدا کرنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے کارکنوں کو مستقبل کے بارے میں کچھ امید پیدا ہو سکے۔ ملکارجن کھڑگے یقیناً کانگریس کے تنظیمی ڈھانچے میں نئی روح پھونکے، نئی اور پرانی نسل کے لیڈروں میں تال میل اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر جماعتوں کے لیڈران سے بہتر تعلقات کا فائدہ 2024ء کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس ہی نہیں، اپوزیشن کو بھی ہو سکتا ہے۔ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات کو ان کے دور اقتدار کے سب سے بڑے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگر آئندہ انتخاب میں بی جے پی کچھ کمزور ہوتی ہے اور اپوزیشن جماعتیں بہتر پوزیشن حاصل کرتی ہیں تو ایسے میں ملکارجن کھڑگے اہم کڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ زمین سے جڑے ہوئے سیاستداں ہیں اور پارٹی کے ساتھ کم و بیش پانچ دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی سے بھی ظاہر ہے کہ پارٹی کے اندر بھی وہ سب کے لئے قابل احترام ہیں۔ ان کی عمر کو اب تک ان کا منفی پہلو کہا جا رہا ہے۔ لیکن تہی عمر اور ان کا لمبا سیاسی تجربہ ان کے آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے میں سب سے بڑا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ کھڑگے کا طویل سیاسی تجربہ کانگریس کے لیے بہت کام آسکتا ہے۔
کھڑگے کی قائدانہ صلاحیت کا امتحان
اس وقت صرف دو ریاستوں راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے۔ ہماچل پردیش اور گجرات اسمبلی انتخابات کے بعد 2023ء میں ان کی آبائی ریاست کرناٹک سمیت نو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ لہذا کھڑگے کی قائدانہ صلاحیت کا امتحان کانگریس کی انتخابی کامیابی کی بنیاد پر ہی کیا جائے گا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کانگریس کے 51؍ سال بعد ایک دلت لیڈر پارٹی صدر کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ چونکہ گجرات، ہماچل پردیش اور کرناٹک کے انتخابات میں دلت رائے دہندگان کا اہم کردار ہے، اس لیے مذکورہ تمام انتخابات میں ملکارجن کھڑگے سے توقعات بہت زیادہ ہوں گی۔ گجرات میں 24؍ سال سے بی جے پی کی حکومت ہے، جب کہ ہماچل میں بھی بی جے پی کا قبضہ ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس کو بھی دونوں ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اروند کیجریوال جس طرح سے گجرات میں سرگرم ہیں، وہ کانگریس کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی
بہر حال، یہ صحیح ہے کہ کھڑگے کو مشکل وقت میں پارٹی کی قیادت ملی ہے، لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اب پارٹی کے پاس کھونے کے لئے بہت زیادہ کچھ نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے کانگریس میں یقیناً نئی روح پھونک دی ہے۔ ابھی تک تمل ناڈو، کیرالہ اور کرناٹک میں اس یاترا کا تقریباً ڈیڑھ ماہ پورا ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں پارٹی کارکنان میں نیا جوش و خروش پیدا ہوا ہے اور صرف پارٹی ہی نہیں، عوام کے اندر بھی کانگریس کے تئیں اعتماد بحال ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کھڑگے کے سامنے چیلنجز زیادہ ہیں تو بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کے پیش نظر ان کے لئے یہ وقت موزوں اور مناسب بھی ہے۔ کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی صدر کا یہ انتخاب نہ صرف کانگریس میں نئی تازگی لا سکتا ہے، بلکہ ملک کے سیاسی نظام کے لیے ایک نقطہ آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس نے پارٹی کے اندر داخلی جمہوریت کی ضرورت کو دوبارہ قائم کیا ہے اور دیگر جماعتوں پر ایسے تنظیمی انتخابات کرانے کے لیے مثبت دباؤ بنادیا ہے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹرہیں) yameen@inquilab.com