ہندوستان میں حجاب اور ایران میں بے حجابی کی جد و جہد ‘حق انتخاب’ کے آئینے میں

ایران میں بے حجابی کی مہم ہو یا ہندوستان میں حجاب کی حفاظت کی لڑائی، دونوں جگہ معاملہ ’رائٹ ٹو چوائس‘اور آزادی کا ہے

ڈاکٹر یامین انصاری

یہ اتفاق ہے کہ ہندوستان اور ایران میں ایک ہی مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ مسئلہ ہے خواتین کے ذریعہ حجاب کے پہننے اور نہیں پہننے کا۔ مگر فرق یہ ہے کہ دونوں جگہ اس مسئلہ پر دو متضاد مہم چل رہی ہیں۔ ایران کی خواتین اس بات کی لڑائی لڑ رہی ہیں کہ انہیں شخصی آزادی ملنی چاہئے۔ انہیں کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا، یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے۔

وہیں ہندوستانی خواتین کی جد و جہد بھی یہی ہے کہ انھیں قانون کے مطابق اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے۔ اس طرح دونوں ملکوں کی خواتین کی لڑائی یکساں ہے۔ اگر ایران میں ’گشت ارشاد‘ یعنی اخلاقی پولیس خواتین کے لباس کی پہرے دار بنی ہے، تو وہیں ہندوستان کے ’گشتی دستے‘ مسلم خواتین کو حجاب اتارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی اس مسئلہ پر ایک اور طبقہ بھی ہے جو ایران کی مثال تو دیتا ہے، مگر ہندوستان کے تعلق سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اس طبقہ کو ایرانی خواتین کی شخصی آزادی تو نظر آتی ہے، لیکن ہندوستانی خواتین کی صدائیں سنائی نہیں دیتیں۔ اگر ہم ایران کی خواتین کی ’آزادی‘ کی حمایت کر سکتے ہیں تو پھر ہندوستانی خواتین کو اس حق سے کیوں محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

یونیفارم کے نام پر مسلم لڑکیوں کو حجاب اتارنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟

اگر ہم ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ کی تنقید کر سکتے ہیں (جبکہ وہاں کا مذہبی اور اخلاقی معاملہ ہے)، تو پھر ہندوستا ن میں پیدا ہونے والے خود ساختہ ’گشتی دستوں‘ کو کیوں نہیں روکا جانا چاہئے۔ اگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران میں اسلام کے نام پر حجاب پہننے کو مجبور کیا جا رہا ہے تو کیا یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان میں اسکولوں میں یونیفارم کے نام پر مسلم لڑکیوں کو حجاب اتارنے پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟

ہندوستان میں چونکہ معاملہ عدالت میں پہنچ چکا ہے، (جبکہ نہیں لے جانا چاہئے تھا) اب عدالت ہی فیصلہ کرے گی کہ آئین کی پاسداری رکھتے ہوئے کیسے خواتین کی شخصی آزادی کو برقرار رکھا جائے۔ کیوں کہ یونیفارم کے نام پر اگر مساوات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے تو تنوع بھی ہندوستان کی اصل روح ہے۔ ملک کے آئین نے ہر شہری کو یہ بنیادی حق بھی دیا ہے کہ وہ کیا پہنے اور کیا کھائے، پھر کسی کو اس میں مداخلت کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ ہندوستان میں حجاب کے مسئلہ پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں سیاسی محرکات شامل ہیں۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس مہم میں بیرونی کے ساتھ داخلی عوامل بھی کار فرما ہیں۔

ہندوستان میں حجاب تنازعہ کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما

ایران ہو یا ہندوستان، حجاب تنازعہ کے تناظر میں خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب بھی کسی ملک میں کوئی مسئلہ یا داخلی انتشار شدت اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے کچھ طاقتیں اپنا کام کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ طاقتیں اندرونی بھی ہو سکتی ہیں اور بیرونی بھی۔ ہندوستان کے حوالے سے اگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں سیاسی عوامل کارفرما ہیں، تو ایران کے تعلق سے بھی بیرونی سازشوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا اس لئے کیوںکہ ایران کے تعلق سے امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک سمیت دنیا کی دیگر بڑی طاقتوں کا کردار سب کے سامنے ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ایران ان طاقتوں کے نشانے پر ہے۔ ان کے ذریعہ وقفہ وقفہ سے ایران کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کبھی اقتدار کی تبدیلی کی کوششیں کی گئی تو کبھی جنگوں میں الجھا دیا گیا۔

اسلامو فوبیا

اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ 11؍ ستمبر 2001ء کو امریکہ پر حملے کے بعد پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بیج بویا گیا، جو ’اسلامو فوبیا‘ کا باعث بنا۔ امریکہ کی نام نہاد ’دہشت گردی مخالف جنگ‘ نے مسلمانوں کے خلاف تعصبات کو جنم دیا۔ امریکی کارروائی کے سبب پوری دنیا کے مسلمانوں کو دشمنی، بداعتمادی، ناانصافی اور شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑا۔ حجاب تنازعہ میں بھی کہیں نہ کہیں اسی ’اسلاموفوبیا‘ کا اثر نظر آتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایران میں اتنے بڑے پیمانے پر یہ احتجاج اچانک کیسے شروع ہو گئے؟

مہسا امینی کی موت سے پورے ایران میں ایک طوفان برپا

در اصل ایران میں حالیہ احتجاج ایک 22؍ سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد سے شروع ہوا، جو 13؍ ستمبر کو تہران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی طرف سے حراست میں لیے جانے کے بعد کومہ میں چلی گئی تھی۔ اسے مبینہ طور پر خواتین کو حجاب یا اسکارف سے اپنے بال ڈھنکنے کا پابند کرنے والے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ پولیس کا الزام تھا کہ اس نے بے پردگی کے ساتھ حجاب پہن رکھا تھا۔ مہسا امینی کی مشتبہ حالات میں موت نے پورے ایران میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے، جس کا آغاز اس کے آبائی شہر کردستان سے ہوا۔

کہا جا رہا ہے کہ امینی ایک ایسے خطہ سے تعلق رکھتی تھی، جو ایران کی حکومت کی تعظیم نہیں کرتا ہے، یہاں شدید غم و غصّہ دیکھنے کو ملا۔ ایران کے کرد علاقوں میں بہت پرانی انقلابی روایات رہی ہیں، کئی دہائیوں سے حکومت کے تعصب اور جبر کا نشانہ رہے ہیں۔ احتجاج کا آغاز اگرچہ کرد علاقوں سے ہوا، مگر اس کے بعد وہ ملک کے 30؍ سے زائد شہروں تک پھیل گیا، جن میں تہران، مشہد، اصفہان، کرج، تبریز اور تعلیم کا مرکز قم شہر بھی شامل ہے۔

مہسا امینی کی موت کے خلاف احتجاج

یہ سلسلہ پولیس تشدد کے خلاف ردعمل کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن جلد ہی یہ حکومت مخالف مظاہروں میں تبدیل ہو گیا اور ریاست کے خلاف غم و غصّے کا اظہار کیا جانے لگا۔ جو ایرانی خواتین اپنے آپ کو جبری حجاب کا شکار مانتی ہیں، مہسا امینی کی موت کے خلاف احتجاج میں کیمرے کے سامنے اپنے بال کاٹتی نظر آئیں۔ جن کی تقلید میں بیرون ملک کی مشہور سیاست دان، اداکارائیں اور ٹی وی اینکرز نے بھی اپنے بال کاٹ لئے۔ یہاں تک کہ کچھ خواتین نے اپنے حجاب کو آگ کے حوالے کر دیا۔

خاص بات یہ ہے کہ موجودہ مظاہروں کی قیادت خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔ ان مظاہروں نے ایران کے شہری علاقوں کے ساتھ دیہات کو بھی اپنی زد میں لے لیا ہے اور ایران کی بہت سی سرکردہ شخصیات نے، جن میں حقوق انسانی اور سماجی کارکن، فن کار، تاجر اور دیگر بااثر شخصیات شامل ہیں، ان مظاہروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعہ عوامی سطح پر اس کے بارے میں بات کی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ دائروں سے باہر نکل کر معاشرے کے تمام طبقات شامل ہو گئے۔

ایرانی خواتین کے مظاہرے حکومت کی تبدیلی کا پیش خیمہ

یہ مظاہرے بظاہر عوام کا ایک بےساختہ ردّ عمل ہیں اور ان کی قیادت کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ایک غیر ملکی ایجنسی کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق روز بروز بڑھتے ہوئے مظاہرے اور عوام کے مزاج میں تبدیلی موجودہ ایرانی حکومت کے لیے ایک ایسا نیا خطرہ ہے، جو 2009ء کے بعد اس وقت سے نظر نہیں آیا تھا، جب ’گرین موومنٹ‘ میں لاکھوں لوگ سڑک پر آگئے تھے۔ ’دی اکانومسٹ‘ نے بھی قیاس آرائی کی ہے کہ ایرانی خواتین کی ’ولولہ انگیز بہادری‘ اور وہاں ہونے والے مظاہرے حکومت کی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔

بہر حال، جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ہر باشعور مسلم مرد اور خاتون اس بات سے واقف ہے کہ اسلام میں پردہ کی خصوصی اہمیت بیان کی گئی ہے اور مرد و زن کو ستر پوشی کے ساتھ شرم و حیا کو بھی مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

حجاب خواتین کی ترقی میں رکاوٹ نہیں

یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ عالمی سطح پر بے شمار مسلم خواتین ایسی ہیں جو با حجاب رہتے ہوئے حقوق نسواں کی کارکن ہیں۔ وہ اپنے اور دوسری خواتین کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ مختلف شعبہائے زندگی میں بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب نہ تو حقوق نسواں پر قدغن لگاتا ہے اور نہ ہی یہ خواتین کی ترقی و خوشحالی یا زمانہ کے ساتھ چلنے میں کوئی رکاوٹ ڈالتا ہے۔ لہذا اگر حجاب کے ذریعہ خواتین کے حقوق کی کوئی پامالی نہیں ہو رہی ہے تو پھر کیوں نہ انھیں ’رائٹ ٹو چوائس‘ یا آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے دی جائے۔

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com