جب نیوز چینلوں نے صحافت کے اصولوں کو ہی بالائے طاق رکھ دیا ہے تو ان کے رویوں میں کسی مثبت تبدیلی کی امید کیسے کی جا سکتی ہے
ڈاکٹر یامین انصاری
ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیا معاشرے کا ایک طاقتور آلہ ہے۔ یہ اس پیشے سے وابستہ افراد پر منحصر ہے کہ وہ اس طاقت کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ اگر معاشرے کے اس طاقتور آلہ کا استعمال سماج اور ملک کی فلاح و بہبود کے لئے کیا جائے، تو یقیناً یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے۔ مگر جب اسی میڈیا کو کسی خاص ایجنڈے کے تحت استعمال کیا جائے یا سنسنی پیدا کرنے کے لئے کیا جائے تو یہی میڈیا معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادی رائے کا اظہار کرنا سب کا حق ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ملک یا کسی طبقہ کو نشانہ بنایا جائے۔ کیوں کہ ملک کے آئین کی دفعہ 19 (ا) اے اظہار رائے کی آزادی کی اجازت تو دیتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارا آئین فرقہ واریت اور نفرت انگیزی کو روکنے کی بھی بات کرتا ہے۔ آئین کی دفعہ 19 (2) اظہار ارئے کی آزادی کی حد مقرر کر دی ہے۔ لہذا حکومت اگر چاہے تو ملک کی سالمیت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، سماجی بھائی چارہ اور نظم و نسق پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ وہیں دفعہ 153 (اے) نفرت انگیز پیغامات اور اشتعال انگیز تقاریر کو قابل تعزیر جرم قرار دیتی ہے۔
چینلوں پر نفرت کی دکانیں
اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف چینلوں پر نیوز اینکر ہر شام نفرت کی دکانیں سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی ’تال ٹھونکتا‘ نظر آتا ہے، کوئی ’مہا مقابلہ‘ کرواتا ہے تو کوئی ’دنگل‘ اور کوئی ’سیدھی ٹکر‘ جیسے بے تکے اور عنوانات سے ٹی آر پی سے زیادہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ویسے اس نفرت انگیزی کے لئے جتنے قصوروار نیوز چینل اور اینکر ہیں، اتنے ہی ذمہ دار وہ لوگ بھی ہیں، جو ان غیر ضروری مباحثوں میں شرکت کرتے ہیں۔ کیوں کہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر وہ لوگ بھی اس نفرت انگیز مہم میں شامل ہوتے ہیں۔
افسوس پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ملک کا میڈیا نفرت انگیزی کی اپنی روش پر ہنوز قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا مہذب طبقہ، ذمہ دار شہری اور مختلف شعبوں سے وابستہ سنجیدہ افراد کے علاوہ عدلیہ کی بار بار تنبیہ کے باوجود نفرت انگیز میڈیا اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کرنے سے باز نہیں آ رہا ہے۔
آر ایس ایس سربراہ بھلے ہی مسجد یا مدرسے کا دورہ کریں، خیر سگالی یا ہندو مسلم کے درمیان خلیج کم کرنے کی کوشش کا دعویٰ کریں یا کچھ مسلم شخصیات سے گفتگو کریں، مگر زمینی سطح پر نفرت کے جو بیج بوئے گئے ہیں اور میڈیا کے ایک طبقہ نے ان میں کھاد اور پانی لگایا ہے، جب تک اس کی جڑوں میں تیزاب نہیں ڈالا جائے گا، اس وقت تک حالات سازگار ہونے والے نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی خاموشی پر اٹھائے سوال
اس ضمن میں عدلیہ یا حکومت ہی کوئی ٹھوس قدم اٹھا سکتی ہے، مگر عدلیہ نے ابھی تک صرف سخت تبصروں اور سرزنش سے ہی کام چلایا ہے۔ موجودہ حکومت سے تو فی الحال کسی خیر کی امید ہی نہیں ہے۔ آئے دن حکمراں طبقہ کے نفرت پر مبنی بیانات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اسی لئے اپنے تازہ تبصرے میں سپریم کورٹ نے جہاں نفرت انگیز میڈیا کی سخت سرزنش کی ہے، وہیں مرکزی حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے اس سے جواب طلب کیا ہے۔
نیوز اینکروں کے تعلق سے سپریم کورٹ کا تبصرہ ان کے ہوش ٹھکانے لگانے والا ہے، مگر جب ان اینکروں نے صحافت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کر دی ہیں، تو ان کے رویوں میں کسی مثبت تبدیلی کی امید بہت کم نظر آتی ہے۔ میڈیا کی نفرت انگیزی کے معاملے پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے میڈیا پر کئی سوال اٹھائے۔ عدالت عظمی نے پوچھا کہ جس طرح کے مباحثے میڈیا اور خاص طور پر نیوز چینلوں کے ذریعے پیش کئے جاتے ہیں انہیں دیکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا ملک کہاں جا رہا ہے؟ ان نیوز چینلوں کے اینکروں پر بڑی ذمہ داری ہے، لیکن وہ سب سے زیادہ نفرت انگیزی سے کام لیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مرکزسے دو ہفتوں میں جواب مانگا
اس کے ساتھ ہی عدالت نے مرکزی حکومت کے رویے پر بھی سوال اٹھائے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایسے ماحول میں مرکز خاموش کیوں ہے؟ ہمیں ریگولیٹری سسٹم ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مرکزسے دو ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ ملک میں نفرت انگیز مواد عام کرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس رشی کیش رائے کی بنچ نے بہت سخت تبصرے کئے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اس سے سرمایہ کماتی ہیں اور ٹی وی چینل ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ تر نفرت انگیز مواد ٹی وی اور سوشل میڈیا پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس ٹی وی کے حوالے سے کوئی ریگولیٹری میکانزم نہیں ہے۔
انگلینڈ میں ایک ٹی وی چینل پر صرف نفرت انگیزی کی وجہ سے بھاری جرمانہ عائد کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے وہ نظام ہندوستان میں موجود نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اینکروں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی جائے کہ اگر آپ غلط کریں گے تو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ جسٹس جوزف نے خاص طور پر اس معاملے میں کہا کہ نفرت انگیزی کا سب سے زیادہ فائدہ سیاست دان اٹھا رہے ہیں اور انہیں روکنے کے ساتھ ساتھ نفرت کی اس کھیتی کو روکنے کے لئے ایک باقاعدہ نظام لانے کی اشد ضرورت ہے۔
نیوز اینکروں کی دھاندلیوں پر مرکز خاموش کیوں؟
جسٹس جوزف نے اس دوران مرکز سے سوال کیا کہ نیوز اینکر اتنی بڑی دھاندلیاں کرتے ہیں تو مرکز خاموش کیوں رہتا ہے؟ سامنے کیوں نہیں آتا اور انہیں لگام کیوں نہیں دیتا۔ حکومت کو بطور ادارہ متحرک رہنا چا ہئے۔ مرکز کو پہل کرنی چا ہئے لیکن یہاں دیکھا جا رہا ہے کہ وہ خاموش تماشائی بنا رہتا ہے جس سے نیوز اینکروں کے حوصلہ بلند ہوجاتے ہیں اور وہ ایک کے بعد ایک نفرت انگیزی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔
اس تعلق سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس سپریم کورٹ میں سرکاری نمائندے نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت الیکٹرانک میڈیا کے ریگولیشن کے لیے بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے۔ درحقیقت ریگولیشن کے سلسلہ میں کوئی باضابطہ التزام نہ ہونے کے سبب حکومت کیبل ٹی وی نیٹ ورکس کے ضابطوں کے تحت نیوز چینلوں کے نشریاتی مواد کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس میں یہ التزام ہے کہ کیبل سروس ایسا کوئی پروگرام نشر نہیں کر سکتی جو کسی خاص فرقے اور مذہب کے خلاف ہو۔
نیز ایسے پروگرام نشر نہ کیے جائیں جو معاشرے میں علیحدگی یا نفرت پھیلاتے ہوں۔ جو پروگرام حقائق پر مبنی نہ ہوں، انھیں نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ساتھ ہی حکومت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کس چینل کو نشریات کی اجازت ہے اور کس قسم کا نشریاتی مواد ہوگا، لیکن نیوز چینلوں کے مواد اور پروگراوں کو دیکھ کر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اس ضمن میں اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان چینلوں کے ریگولیٹری ادارے بھی خاموش ہیں۔
چینل مالکان کو بھی جوابدہ بنانے کی ضرورت
نیوز براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (این بی اے) چینلوں کی ساکھ اور اخلاقیات کے مسائل پر کچھ کرتی نظر نہیں آتی۔ یہ سوال حکومت سے کیا ہی جا سکتا ہے کہ وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس اور فیصلہ کن اقدامات کیوں نہیں کررہی ہے؟ بہر حال، عدالت عظمیٰ کی سخت سرزنش اور تبصروں کے تناظر میں چوتھا ستون ہونے کا دعویٰ کرنے والے میڈیا اداروں کو ذمہ داری سے کام لینا ہو گا۔ صرف اینکروں اور مباحثوں میں شامل افراد کو قصوروار ٹھہرا کر کام نہیں چل سکتا۔ چینل مالکان کو بھی اس کے تئیں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) yameen@inquilab.com